صرف ایک دن کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کافی نہیں

یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کا آغاز قاضی حسین احمد مرحوم کی تجویز پر 1990میں کیا گیا۔ اس دن دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری اور پاکستانی عوام دنیا کو پیغام دیتے ہیں کہ ہم مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ 5 فروری منایا جانا اچھا اقدام ہے لیکن صرف ایک دن کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر لینا کافی نہیں ہے۔ سال کے 365دن ہمیں مظلوم کشمیریوں کیلئے ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کرتے رہنا چاہیے۔ قائد اعظم کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس شہ رگ کو بچانے کیلئے کشمیری 70سالوں سے اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔ پاکستانی پرچم میں دفن ہو کر اپنا حق ادا کر رہے ہیں جبکہ ہماری جانب سے سال میں ایک دو بار مسئلہ کشمیر پر سیمینار ،جلسے ، جلوس اور ریلیاں نکالنا کافی نہیں ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارتی فوج نے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر رکھی ہے۔ لوگوں کے جسموں میں سلاخیں ڈالی جاتی ہیں۔ ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت پامال کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود کشمیری عوام کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ تھکے یا جھکے نہیں اور اپنے اصولی موقف پر کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں۔ مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا نا مکمل ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کا وقت آ گیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے دیرپا امن کی ضمانت بھی اس مسئلہ کے حل میں ہے۔ اب حکمرانوں کو کشمیریوں کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں۔ پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت جاری رکھنے جیسے روایتی بیانوں کے بجائے عملی اقدام کرنا ہونگے۔ کشمیر کمیٹی کو متحرک کرنا ہو گا۔ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین کسی کشمیر ی کو بنایا جائے جو کشمیریوں کے موقف کو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے بیان کر سکے۔ اقوام متحدہ کی5جنوری 1949کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ اس بات کی سمجھ بھارت میں رہنے والے لوگوں کو بھی آ گئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ فوج رکھنے کے باوجود بھارت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو نہیں دبا سکا۔ اس لیے اب بھارت کے اندر سے بھی کشمیریوں کے حق میں آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حق خود ارادیت کے سوا مسئلہ کشمیر کا کوئی حل دیرپا نہیں ہو گا۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے کرنے والے کام یہ ہیں کہ وہ مضبوط ہو کیونکہ ایک طاقت ور پاکستان ہی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی ضمانت ہے۔ پاکستان مضبوط اور طاقت ور ہوگا تبھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرا سکتا ہے ورنہ اقوام متحدہ تو وہ ادارہ ہے جہاں ایک بڑے اور چھوٹے ملک کا مسئلہ آئے تو چھوٹا ملک غائب ہو جاتا ہے۔ اگر دو بڑے طاقتور ممالک کا مسئلہ آئے تو اقوام متحدہ غائب ہو جاتی ہے۔ جیسے امریکہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور اقوام متحدہ آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بھی امریکہ اور اقوام متحدہ کا دہرا معیار ہے ۔ کشمیر کی آزادی کیلئے پاکستان کا مستحکم ہونا ضروری ہے تبھی وہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق دنیا کو بتا سکتا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے۔