عمران خان کے 4نئے مطالبات
بہاولپور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے 4 نئے مطالبات پیش کردیئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ چار حلقوں میں انگوٹھوں کی تصدیق والے دیرینہ مطالبے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس ایک ماہ ہے وہ ہمارے مطالبات پورے کریں اور سوالوں کا جواب دیں کہ الیکشن کے دوران میاں صاحب سے وکٹری تقریر کس نے کروائی،کون کون ملوث تھا؟ الیکشن میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کا کیا کردار تھا؟ نگران حکومت کا کیا کر دار تھا؟ ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے ماتحت کیوں نہ تھے؟ عمران خان نے کہا کہ ’ مطالبات پورے نہ ہوئے تو 14 اگست کو 10 لاکھ افراد کا سونامی اسلا م آباد کا رخ کرے گا۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں‘۔
واضح رہے کہ 6مئی 2014ءکو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 11 مئی2014ءسے ملک میں تبدیلی کی جنگ شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’ جب تک الیکشن میں دھاندلی پر ہمیں انصاف نہیں ملتا یہ تحریک چلتی رہے گی‘۔ عمران خان نے مزید کہا کہ ’احتجاج کا مقصد حکومت گرانا نہیں ،نہ توڑپھوڑ کرنا ہے اور نہ ہی عوام میں انتشار پھیلانا ہے۔ ہمارا مقصد جمہوریت کو ڈی ریل کرنا نہیں بلکہ جمہوریت کو بہتر بناناہے،ہم پاکستان میں صاف اور شفاف انتخابات کی کوشش کررہے ہیں۔ الیکشن کے فوری بعد کہا تھا نتیجہ قبول کرلیا ہے لیکن دھاندلی قبول نہیں، ایک سال سارے دروازے کھٹکھٹائے، سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن، الیکشن ٹربیونلز میں 65 حلقوں کے کیس لے کر گئے اور صرف 4 حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تاکہ جنہوں نے دھاندلی کی انہیں سزا دی جاسکے اور عوامی مینڈیٹ چوری کرنے والوں پرآرٹیکل 6 لگایا جائے لیکن ہمیں انصاف نہیں ملا، انتخابی عمل میں اصلاحات لاکر بائیو میٹرک نظام لاکر اے وی ایم مشینیں لائی جائیں، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے۔ اسی روز اسلا م آباد ایسوسی ایشن سے خطاب کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے الیکشن میں دھاندلی سے متعلق تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ ’ریٹرننگ افسروں کا تقرر الیکشن کمیشن کرتا ہے، چیف جسٹس سپریم کورٹ کا انتخابات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا‘۔ اب عمران خان کا پہلا سوال نما مطالبہ یہ ہے کہ الیکشن کے دوران میاں صاحب سے وکٹری تقریر کس نے کروائی،کون کون ملوث تھا؟ میاں صاحب نے فتح کی تقریر سوا11بجے شب کی۔عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ اگر پولنگ 5 بجے ختم ہو تو تمام جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کے سامنے گنتی تقریباً 3گھنٹے میں مکمل ہوجاتی اوران سے دستخط لے کر بیلٹ پیپرز تھیلوں میں سیل کردیے جاتے ہیں، تقریباً 10بجے شب تک اکثر حلقوں کے نتائج سامنے آجاتے ہیں اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق معلوم ہوجاتا ہے کہ کس صوبائی اور قومی حلقے میں کس جماعت کے نامزد امیدوار کامیابی سے ہم کنار ہوچکے ہیں۔اس مشاہدے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ 11مئی 2013ءکو 11بجے شب تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ کونسی جماعت ملک گیر سطح پر کامیابی حاصل کر رہی ہے۔چونکہ قومی اسمبلی حلقہ این اے 124میں بطور چیف پولنگ اینجٹ میں خود بھی مووجد تھا تو اس وقت میرے پاس تقریباً 30پولنگ اسٹیشنز کے نتائج سامنے آچکے تھے واضح نظر آ رہا تھا کہ کون جیت رہا ہے۔ یہ امر بھی واضح رہنا چاہیے کہ گنتی کے عمل کی نگرانی اساتذہ، پٹواریوں اور کلرکوں نے نہیں بلکہ ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان نے کی۔ عدلیہ کی زیر نگرانی انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی جناب عمران خان کا ہی تھا۔ جہاں تک سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو وہ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ الیکشن کا انعقاد اور ا±س کی نگرانی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے نہ کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی لہٰذا ا±ن پر دھاندلی کا الزام لغو اور بے بنیاد ہے اور وہ ایسے الزامات کا جواب نہیں دیتے۔ جہاں تک نگران حکومت کے کردار سے متعلق ا±ن کے سوال نما مطالبے کا تعلق ہے تو ہر کوئی جانتا ہے کہ نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کے نام پر اپوزیشن اور حزب اقتدار دونوں متفق تھے اور اس منصب کے لیے نام حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ تب نگران وزیراعظم اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں 35 پنکچرز کی بات کے حوالے سے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کا نام سامنے آیا کہ انہوں نے ایک خبر رساں ایجنسی کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے 35 پنکچرز لگانے کی بات کی تھی جبکہ اس خبر کی اشاعت کے بعد سے اب تک نجم سیٹھی متعدد بار اس کی تردید کر چکے ہیں کہ انہوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔ اس کے برعکس تحریک انصاف آج تک اس ٹیلی فون کی ریکارڈنگ منظر عام پر نہیں لائی۔ جہاں تک ا±ن کے اس سوال کا تعلق ہے کہ ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے ماتحت کیوں نہ تھے؟ اولاً تو اس سوال کا جواب انہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذمہ داران سے مانگنا چاہیے ثانیاً مئی 2013ءکے الیکشن پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نہیں کروائے تھے۔ ا±س کی تمام تر نگرانی نگران حکومت کا سیٹ اَپ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا عملہ کر رہا تھا۔ بہرطور 14 ماہ بعد یہ سوال ا±ٹھا کر عمران خان نے ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیا ہے۔ 13مئی2014 ءکوقائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس ناصرالملک نے الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان پرمکمل اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے انہیں مضبوط کردار کا حامل قرار دیا۔ جسٹس ناصرالملک نے جوسپریم کورٹ کے سینئر موسٹ جج ہیں یہ بات واضح کی کہ ’ عمران خان یا کسی اورسیاسی مطالبے پرالیکشن کمیشن ختم نہیں کیا جائے گا، کسی کواعتراض ہے توآرٹیکل 209 کے تحت سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں چلا جائے‘۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کا فل بنچ 20مارچ2014ءکوسندھ حکومت بنام ایم کیو ایم کے مقدمے میں الیکشن کمیشن کے موجودہ ارکان پراعتماد کا اظہارکرچکا ہے۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن ارکان کوغیرجانبدار اورمضبوط کردار (integrity) کا حامل قرار دیا تھا۔یہ امر لائق توجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی مدت جون 2016ءمیں مکمل ہو گی۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں شکست سے دوچار ہونے والا امیدوار اکثر فاتح امیدوار اور اس کی جماعت پر دھاندلی کے الزامات عائد کرتا ہے۔ یقیناًیہ رویہ صحت مند جمہوری روایات کے منافی ہے۔ سیاسی جماعتوں، ان کے قائدین اور کارکنوں کو بالغ نظری کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرنا چاہئے۔ مستحسن طرزِ عمل تو یہ ہے کہ ہار جانے والے امیدوار اور جماعتیں کامیاب امیدواروں اور جماعتوں کو مبارکباد پیش کریں اور اپنے حامی کارکنوں کو سمجھائیں کہ شکست انتخابی کھیل کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اگر اس طرزِ عمل کو سیاسی جماعتوں کے امیدوار اپنا چلن بنا لیں تو سیاسی رنجشوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی منفی صورت حال سے وہ، ان کے حامی اور حلقہ کے رائے دہندگان محفوظ رہیں۔جیسا کہ پوری دنیا میں خاص طور پر امریکہ برطانیہ میں جن کے نقش قدم پر ہم چلنے کی کوشش کرتے ہیں میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے ۔