عام آدمی پر پراپرٹی ٹیکس حکمرانوں کے محلات مستثنیٰ؟
پنجاب اسمبلی نے دو کنال سے آٹھ کنال کے گھروں پر اڑھائی لاکھ روپیہ فی کنال پراپرٹی ٹیکس کی منظوری بھی دے دی لیکن جن کے محلات ایکڑوں پر پھیلے ہوئے ہیں ان کی بات نہیں کی گئی حکومت پنجاب نے پراپرٹی ٹیکس میں کمی کرنے کی بجائے اضافہ کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نیا ٹیکس فارمولا میں ویلیوایشن ٹیبل فیصل آباد کے اعدادوشمار کے مطابق کمرشل اور رہائشی جائیداد پر پراپرٹی ٹیکس سابق ٹیکس کے مقابلہ بعض خبروں کے مطابق 25فیصد زائد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ چونکہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی طرف سے کٹوتی کی جو بجٹ تجاویز پیش کی گئی تھیں حکومت نے ان کو ماننے سے انکار کردیا جس پر پنجاب اسمبلی کی ننھی منی اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور متحدہ اپوزیشن نے پنجاب کے بجٹ کو عوامی امنگوں اور عوام کے محدود وسائل آمدن کے خلاف ظالمانہ بجٹ قرار دیا ہے۔ پنجاب کے بجٹ میں عام آدمی اور غریب آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے، اسے امیروں سرمایہ داروں کا بجٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ چونکہ پنجاب اسمبلی میں ننھی منی اپوزیشن کی کسی بھی تجویز اور اپوزیشن کی طرف سے بجٹ تجاویز اور کٹوتی کی تحریکیں پیش کی گئیں حکمران پارٹی نے ان پر بحث کرانا بھی پسند نہیں کیا لہٰذا اپوزیشن کے بائیکاٹ اور عدم دلچسپی پر فنانس بل کی منظوری کے ساتھ ہی آئندہ سال کا بجٹ باقاعدہ منظور کر لیا گیا۔ بجٹ کی منظوری پر صوبائی وزیر قانون رانا مشہود بجٹ کو عوام کا بجٹ قرار دیتے ہوئے عوام کی ترقی اور خوشحالی کا بجٹ قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے صحت تعلیم سمیت تمام شعبوں میں بہتری آئے گی اور عوام کو ریلیف ملے گا۔ لیکن پراپرٹی ٹیکس کے حوالہ سے پانچ مرلہ کے رہائشی مکانات پر پراپرٹی ٹیکس کی جو چھوٹ دی گئی تھی وہ برقرار رکھی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو یہ ہدایات جاری کی جا رہی ہیں کہ پانچ مرلہ پر مشتمل مکانات جو لوگوں نے کرایہ پر دیئے ہوئے ہیں ان سے پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کا نیا فارمولا بنایا جائے اور دس نئی اشیاءآٹوورکشاپس انڈسٹریل الیکٹریکل آلات تعمیراتی مشینری، سروسز سٹیشن، کال سنٹرز اور سٹاک مارکیٹ کے بروکریج ہاﺅسز کمیشن ایجنٹ بیماریوں کے تشخیصی سنٹرز یعنی لیبارٹریز، جم اینڈ فزیکل فٹنس سنٹرز وغیرہ پر سولہ فیصد سیلزٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے۔بعض شعبے ایسے بھی ہیں مثال کے طور پر جم اینڈ فزیکل فٹنس سنٹرز کو بھی ٹیکس کی زد میں لا کر کرپشن کا ایک نیا راستہ کھول دیا گیا ہے اور لوگ جو بیماریوں کی تشخیص کے لئے مختلف لیبارٹریز سے ٹیسٹ کراتے ہیں پہلے ہی لیبارٹری والوں کے اخراجات عوام کی برداشت سے باہر تھے اب اگر کوئی شخص ڈاکٹر کے کہنے پر اپنے ٹیسٹ کراتا ہے تو مالکان لیبارٹریز اپنی فیس کے ہمراہ اس سے پندرہ فیصد سیلزٹیکس کے نام پر بھتہ وصول کریں گے۔ پنجاب اسمبلی نے دو کنال سے آٹھ کنال کے گھروں پر اڑھائی لاکھ روپیہ فی کنال پراپرٹی ٹیکس کی منظوری بھی دے دی لیکن جن کے محلات ایکڑوں پر پھیلے ہوئے ہیں ان کی بات نہیں کی گئی کہ وہ کتنا پراپرٹی ٹیکس دیں گے۔ اس وقت لاہور میں میاں برادران کی جاتی عمرہ ریاست میں بحریہ ٹاﺅن میں آصف علی زرداری کے محلات پر کوئی ٹیکس نہیں ہے صرف شریف برادران ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے محلات ایکڑوں پر مشتمل ہیں۔ ان سے کتنا ٹیکس وصول کیا جائے گا پنجاب بجٹ میں اس طرف کوئی اشارہ تک نہیں ملتا۔ بات سیدھی سی ہے کہ پنجاب اسمبلی میں چونکہ اکثریت مسلم لیگ(ن) کے ارکان کی ہے اور اپوزیشن کے جو گنتی کے چند ارکان ہیں ان کی آواز کو اکثریت کے بل بوتے پر دبا دیا جاتا ہے اور مسلم لیگ(ن) کے ارکان وہی زبان بولتے ہیں جن کی اجازت ان کی قیادت یعنی شہبازشریف دیتے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کی آمریت ہے اور مسلم لیگ(ن) ایک آمر بن کر بجٹ کے نام پر ٹیکس کے حوالہ سے قانون سازی کر رہی ہے جس کی شریف فیملی کے ارکان اجازت دیتے ہیں۔ پراپرٹی ٹیکس غریب آدمی سے وصول کرنے کے لئے نئے سے نئے آمرانہ ٹیکس عائد کئے جا رہے ہیں لیکن سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے محلات کی طرف کسی کی نظر نہیں اٹھتی۔ اگر دو کنال سے آٹھ کنال کے گھروں پر فی کنال اڑھائی لاکھ روپیہ پراپرٹی ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے تو ایکڑوں پر پھیلے ہوئے محلات پر پراپرٹی ٹیکس کیوں نہیں۔ ایکڑوں پر پھیلے ہوئے محلات کو آٹھ کنال قرار دے کر پنجاب بجٹ کو واقعی سرمایہ داروں اور حکمرانوں کا بجٹ بنا دیا گیا ہے کیونکہ بجٹ کی ہر شق میں سرمایہ داروں کے مفادات کو ہی تقویت فراہم کی گئی ہے۔ اگر عوام اندھی عقیدت کے سیلاب میں بہہ کر پنجاب اسمبلی میں ایک مضبوط اپوزیشن بھیجتے تو اپوزیشن کے ارکان نے کٹوتی کی جو تحریکیں پیش کیں ان پر بحث ہوتی تو حکومت کو اپنی من مرضی کرنے کا قطعی موقع نہ ملتا۔ بہرحال ویلیوایشن ٹیبل فیصل آباد فارمولا پر عملدرآمد کی صورت میں غریب عوام اور عام آدمی پر پراپرٹی ٹیکس کی تلوار سے جو وار کیا گیا ہے اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔