Tayyab Mumtaz

معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کو جینے دو

فلسطین ایک آزاد ریاست ہے جس کو ختم کرنے کیلئے اسرائیل نے ہمیشہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں اور توڑ رہا ہے 38 سال قبضہ میں رکھنے کے بعد سے لے کر اب تک اسرائیل نے مسلسل غزہ پر ظلم و ستم ڈھائے ہیں غزہ کے گرد اسرائیل نے گھیرا تنگ کیا ہوا ہے، غزہ کی تجارت اور خارجی معاملات بھی آزاد نہیں، 8 جولائی سے اسرائیل غزہ پر بارود کی بارش کررہا ہے، اسرائیلی حدود کا سمندر، زمین اور آسمان فلسطینوں پر قہر ڈھا رہے ہیں، غزہ کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی ہیں، مکانات کھنڈرات میں بدل چکے ہیں حالیہ حملہ میں مارے جانیوالے میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے فضائی بم بماری کے بعد اب زمینی آپریشن بھی جاری ہے اور اسرائیل کا کوئی پہلا حملہ نہیں ہے بلکہ اسرائیل وقتاً فوقتاً غزہ پر ظلم کرتا آرہا ہے 2008-2009 کے حملوں میں پہلے روز ہی 500 سے زائد افراد کا قتل کیا گیا تھا، 12 روز میں یہ تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی تھی اس آپریشن کو اسرائیل نے کاسٹ لیڈ کا نام دیا تھا۔ اس وقت بھی حملے شروع کرنے کا جواز یہی بنایا تھا کہ حماس کی جانب سے راکٹ فائر کئے گئے ہیں اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس کی جنگی قوت ختم نہ ہو جائے اب بھی راکٹ حملے کو جواز بنا کر دو عشروں سے بمباری جاری ہے جس میں ایک ہزار کے قریب افراد شہید کئے جا چکے ہیں، سینکڑوں افراد زخمی ہیں حملے کی صورت میں غزہ کی صورت حال بگڑ چکی ہے اشیائے خوردونوش اور طبی امدادی سامان کی قلت ہو چکی ہے پینے کا صاف پانی اور ایندھن بھی نایاب ہو چکا ہے شہر کی تمام ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں طبی امداد نہ ہونے کی وجہ سے زخمی دم توڑ رہے ہیں زخمیوں کی طبی امداد کیلئے اسرائیلی فوجی ڈاکٹرز کا لبادہ اوڑھ کر زخمیوں پر خطرناک ادویات کا تجربہ کررہے ہیں، جنازوں پر بمباری کی جارہی ہے بچوں سمیت سکولوں کی عمارتوں کو تباہ کیا جارہا ہے ایک لاکھ سے زائد افراد اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ گزیں ہیں یہ غزہ سے ملنے والی اطلاعات بھی انتہائی محدود ہیں کیونکہ عالمی میڈیا اس وقت یہود و ہنود کے زیر اثر ہے غزہ میں صحافی برادری کا داخلہ بند کیا ہوا ہے، اس لیے حقیقی صورت حال کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
جنیوا معاہدے کے تحت ہسپتالوں اور سکولوں کو کہیں بھی نشانہ نہیں بنایا جا سکتا مگر اسرائیلی بربریت کی انتہا دیکھیں کہ ہسپتال ،سکول کسی بھی جگہ کو نہیں چھوڑا جا رہا ۔میں تو حیران ہوں کہ سوائے ترکی کے صدر طیب اردگان کے علاوہ اس وقت تمام مسلم حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا ہے شاید ان کے منہ سے زبان چھین لی گئی ہے خالی جمع خرچ کے علاوہ کسی نے مذمتی بیان نہیں دیا طیب اردگان کی جرات کو سلام واحد مرد مجاہد ہے جو اسرائیل اور یہودیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہے۔کاش کے اس عالم اسلام کو یکجا کرنے والا کوئی لیڈر مسلمانوں کو میسر آ سکے جو ان کی بگڑی کو سنوار سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button