Tayyab Mumtaz

اسپغول تے کچھ نہ بول گھر کے رہے نہ گھاٹ کے

کپتان کا کوئی قصور نہیں اسے کرکٹ کے میدان کو خیر باد کیے دو دہائیاں گزر گئیں لیکن وہ کرکٹ سے باہر نہیں نکل رہا۔ا ب بھی بات کرتاہے تو ہمیشہ کرکٹ کی زبان میں ہی کرتاہے وہ یہ بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ سیاست کرکٹ کا کھیل نہیں جس میں دو ٹیموں کے 22 کھلاڑی حصہ لیتے ہیں سیاست تو ناممکن کو ممکن بنا کر کروڑوں کی زندگیوں کو سنوارنے اور ملک کو ترقی دینے کا نام ہے ،لیکن کیا کیا جائے کپتان جی کا کہ اس کی تربیت ہی کھیل کے میدان میں ہوئی ہے اور وہ سیاست بھی کرکٹ کے اصولوں کے تحت کرنا چاہتا ہے۔کسی اور سیاسی رہنما کے جلوس پر پتھراﺅ ہوا ہوتا تو وہ کبھی بھی کنٹینر سے نکل کر بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر اس پھرتی کا مظاہرہ نہ کرتا جس طرح عمران خان نے گوجرانوالہ میں کیا بلکہ وہ اپنا سفر پیدل شروع کر دیتا کہ جس مخالف نے نشانہ بنانا ہے بنالے۔ مجمع تھوڑا تھا یا زیادہ کسی اور عوامی لیڈر کو رات کے پچھلے پہر برستے ساون میں اتنے کارکن میسر آئے ہوتے تو وہ کبھی بھی وقفے کا اعلان نہ کرتا۔ دراصل کرکٹ کے کھیل میں ہر دو گھنٹے بعد وقفہ آتا ہے کبھی پانی کا اور کبھی کھانے کا گوروں کا کھیل ہے اس لیے دن میں ٹی بریک بھی کی جاتی ہے ٹیسٹ میچ میں تو پوری رات کا وقفہ ہوتا ہے اور تین دنوں کے بعد ایک دن آرام کا۔
کپتان جی قرائن بتا رہے ہیں کہ آپ نے جلد بازی میں اپنی سیاست کو بریک لگا دئیے ہیں، سیاست اور وہ بھی احتجاجی سیاست جرات بہادری اورڈٹے رہنے کا نام ہے۔ آپ نے ابھی تک پاکستان میں اٹھنے والی احتجاجی تحریکوں اور حکومتیں ان کو کس طرح ڈیل کرتی تھیں کا مطالعہ نہیں کیا چونکہ آپ مصروف شخص ہیں اس لئے مطالعہ کرنے کا وقت نہیں ملتا ہوگا۔ اپنے دائیں بائیں والوں سے ہی کبھی پوچھ لو۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ اور میاں طفیل محمد مرحوم کے داماد اعجاز چوہدری جو پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے صدر ہیں سے کبھی دریافت کیجئے گا کہ لاہور میں جب سید مودودی کے جلسے میں حکومت وقت کی ایماء پر فائرنگ کی گئی اور ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوگیا تو لوگوں نے مولانا کو نیچے بیٹھ جانے پر اصرار کیا لیکن مولانا یہ کہہ کر ڈٹے رہے کہ اگر میں بیٹھ گیا تو کون کھڑا ہوگا۔ اعجاز چوہدری صاحب کو بھی مشورہ ہے کہ وہ اپنے چیئرمین کو قاضی حسین احمد کی زیر صدارت ہونے والے دھرنوں اور احتجاجوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے آگاہ کریں کہ کس طرح بے نظیر بھٹو دور حکومت میں ہونے والے احتجاج میں راولپنڈی اسلام آباد پولیس کے پاس آنسو گیس ختم ہوگئی تھی لیکن قاضی حسین احمد اور مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم اپنی جگہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے اور اپنے کارکنوں کے سروں پر سایہ فگن رہے۔
اعجاز چوہدری کیا جناب شاہ محمود قریشی اورشفقت محمود کا تعلق پیپلزپارٹی سے رہا ہے۔ کپتان جی کبھی وقت ملے تو ان دونوں سے پیپلز پارٹی کی سیاسی جدوجہد اور قربانیوں کی تفصیل معلوم کیجئے گا۔ پیپلز پارٹی کے سیکڑوں کارکنوں نے اپنی جدوجہد میں لاٹھیوں اور کوڑوں کے زخم سہے، پھانسی کے پھندے اپنے ہاتھوں سے پہنے اور تو اور بانی چیئرمین خود مثال تو کیا ضرب المثل بن گئے۔ بے نظیر بھٹو شہید کی سیاسی زندگی تو آپ کے سامنے ہے ان کے سیاسی مخالفین نے ان کے ساتھ اور ان کے کارکنوں کے ساتھ کیا کیا سلوک نہ کیا، لیکن نہ کبھی شہید نے اپنے کارکنوں کو اور نہ کارکنوں نے شہید بی بی کا ساتھ چھوڑا۔ سانحہ کارساز میں سیکڑوں جیالے اپنی لیڈر پر قربان ہوگئے۔ سانحہ لیاقت باغ میں درجنوں کارکن اپنی لیڈر کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے کسی ریفری سے ٹائم آﺅٹ نہ لیا۔ آپ نے کیا کیا کسی کی نکسیر تک نہ پھوٹی اور کنٹینر چھوڑ کر بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر گوجرانوالہ سے اسلام آباد آ گئے اور پھر ملک بھر سے آئے ہوئے اپنے کارکنوں کو بے رحم موسم کے سپرد کرکے بنی گالہ اپنے محل میں سونے چلے گئے۔
کپتان جی کبھی وقت ملے تو اپنی پارٹی کے صدر جاوید ہاشمی سے دریافت کیجئے گا کہ اس کے جسم پر کیا کیا نہ گزری۔ پاکستان میں برپا ہونے والی کون سی سیاسی تحریک ہے جس میں وہ شریک نہ رہا ہو۔ کون سا ایسا سیاسی رہنما ہے جس کی جدوجہد اس نے نہ دیکھی ہو۔ لیڈر جہازوں اور لینڈ کروزر گاڑیوں میں سفر کرکے نہیں بنتے۔ مشکل وقت میں استقامت کا مظاہرہ کرکے بنتے ہیں۔ آپ بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھ کر نواز شریف سے استعفیٰ لینے نکلے ہیں۔ جاوید ہاشمی سے کبھی مظفر گڑھ سابق صدر فاروق لغاری کے رضی فارم کی طرف جانے والے اس سفر بارے دریافت کیجئے گا جس کی قیادت میاں نواز شریف کر رہے تھے۔ نواز شریف کوسٹر کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے، آگے سے اور دائیں بائیں سے فائرنگ کی گئی۔ بس کے شیشے ٹوٹ گئے۔ جس نشست پر نوازشریف بیٹھے تھے اس کے سامنے والے شیشے میں گولی لگنے سے سوراخ ہوگیا۔ بس میں موجود تمام لوگوں نے بشمول چوہدری برادران نے لاکھ منت ترلے کئے کہ وہ اس نشست سے اٹھ جائیں لیکن وہ نہ مانے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جس روز محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں اس روز بھی میاں نوازشریف کے جلوس پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ان کے کئی کارکن شہید ہوئے لیکن انہوںنے جلوس اور کارکنوں کو نہ چھوڑا۔
کپتان جی کھیل چھوڑ کر سیاست میں آئے آپ کو اٹھارہ برس سے زائد ہوگئے۔ اب سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیجئے۔ ساٹھ، ستر، اسی، نوے اور اکسویں صدی کی پہلی دہائی میں سیاسی جماعتوں کی تحریکوں اور جدوجہد کا مطالعہ کیجئے۔ اس دور میں سیاسی کارکنوں کو کن مشکلات اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا تھا اللہ نہ کرے کہ وہ دور پھر کبھی واپس آئے۔ آپ اور آپ کے کارکنوں کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑتا تو کبھی کے سیاست چھوڑ چکے ہوتے۔ آج کے سیاسی جلسے ، جلوس اور بالخصوص تحریک انصاف کے جلسے تو پکنک ہے، آرام دہ ٹھنڈی گاڑیاں ، پینے کے لئے منرل واٹر اور ریڈ بل کے انرجی ڈرنک اور رات بسر کرنے کیلئے نرم بستر۔
ویسے کپتان جی آپ نے ایک کام اچھا کیا جو شیخ رشید احمد کو اپنی گاڑی سے نیچے اتار دیا۔ جن کی تمام کامیابیاں دوسروں کی جدوجہد کو اپنے نام کرنے کی مرہون منت ہیں۔ شیخ جی اب کیمروں کا دور ہے، وہ دور گزر گیا جب صرف دو اخبارات ہوا کرتے تھے ایک کے نیوز ایڈیٹر آپ کے بڑے بھائی اور دوسرے کے ایڈیٹر آپ کے سرپرست۔ اب یہ ممکن نہیں کہ لیاقت باغ میں صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے سٹیج پر چڑھ کر سینٹر مشاہد اللہ کا بڑا بھائی مجاہد اللہ احتجاج کرے اور اپنے پیٹ کی آنتیں دونوں ہاتھوں سے سنبھال کر ہسپتال پہنچنے اور اگلے روز اخبارات میں تصویر سکوٹر کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آپ کی شائع ہو۔آپ کے لیے تو صرف یہی محاورا صادر آتا ہے اور وہ ہے دھوبی کا ….گھرکا نہ گھاٹ کا
کچے پکے نیوز اینکر جو کیمرے کے ایک فریم کو دیکھ کر انقلاب کے نقیب بنے ہوئے ہیں کو مشورہ ہے کہ۔
عشق وہ کھیل نہیں جو بچے کھیلیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button