Tayyab Mumtaz

بھارت ،افغان ،طالبان پالیسی ہماری حکومت سیاستدانوں کی

پاکستان میں اس وقت ہر آنکھ ٹی وی پر لگی ہے دھرنے ڈنڈے ناچ گانے اور بازاری زبان ہر طرف جاری و ساری ہے،مذاکرات کے نام پر کھابے کھائے جا رہے ہیں قوم کی بیٹیاں نئے پاکستان کی تلاش میں سڑکوں پر سرگرداں ہیں۔اطلاعات کے مطابق کئی کی عزتوں کو تار تار بھی کیا جا چکا ہے مگرنیا پاکستان ہے کہ ملنے کو ہی نہیں آ رہا ہے۔
پاک فوج کا کردار بہت اہم ہے میری اطلاعات کے مطابق پاک فوج نے اپنے تین مطالبات حکومت کے سامنے رکھے تھے جن کو مان لیا گیا ہے ان میں سب سے پہلا مطالبہ بھارت افغانستان اور طالبان پالیسی پاک فوج بنائے گی حکومت صرف اس کو منظر پر لائے گی اس مطالبے کو من و عن مان لیا گیا ہے اور اب نظر آ رہا ہے کہ حکومت بچ جائے گی اور مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں گے۔
بہر حال دوسری طرف پاک بھارت تعلقات کے فروغ میں رکاوٹ بننے والے امور میں کشمیر اور پانی کے تنازعات سرفہرست ہیں۔ 1960ءمیں دونوں ملکوں میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے پر دستخطوں کچھ عرصہ بعد سے ہی بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریاوں پر ڈیم بناکر پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ لاہور میں گزشتہ روز اس بارے میں ایک سال کے تعطل کے بعد دونوں ملکوں کے انڈس واٹر کمشنروں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ پھر شروع ہوا ہے۔ بات چیت کے پہلے دور میں پاکستان نے دریائے چناب پربنائے گئے کشن گنگا ڈیم کے ڈیزائن کے علاوہ2110میگاواٹ کے چار مجوزہ بھارتی ڈیموں پر بھی اپنے اعتراضات ریکارڈ کرائے۔پاکستانی وفد نے پاکستانی ڈیموں پر بھارت کی جانب سے ڈیم بنائے جانے کو طاس سندھ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ بھارت ان ڈیموں پر سپل ویز نہیں بناسکتا۔تاہم کسی وجہ سے ایسا کیا بھی جائے تو انہیں اونچی سطح پر بنایا جانا چاہیے۔ بھارت پر واضح کیا گیا کہ اگر طاس سندھ معاہدے کی پابندی نہ کی گئی تو پاکستان ازسرنو عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ فی الحقیقت دریائی پانی کا معاملہ پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ بھارتی حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ پاکستان کو بنجر اور ویران کرکے خوشگوار باہمی تعلقات اور پاکستان کی جانب سے بھارت کو تجارت کے حوالے سے پسندیدہ ترین ملک قرار دیے جانے کی توقع نہیں رکھ سکتے۔بھارت کا یہ رویہ جاری رہا تو خطے میں پائیدار امن کے خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا محال ہوگا جبکہ عوام کے شب و روز کی تلخیوں کو دور کرنے اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے پائیدار امن پاکستان ہی نہیں بھارت کی بھی لازمی ضرورت ہے جس کی 80 سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ لہٰذا خوشگوار تعلقات میں حائل پانی کی منصفانہ تقسیم کے معاملے میں پاکستان کے تمام تحفظات کادور کیا جانا ناگزیر ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button