دہشتگردی کیخلاف فوج اور سیاسی قیادت ایک صفحے پر

جمعہ کے روز جی ایچ کیو میں وزیراعظم کی زیرصدارت فوجی قیادت کے ساتھ ایک نہایت اہم اور حساس درجے کے فیصلے کرنے والا اجلاس منعقد ہوا۔ یہ اجلاس دو لحاظ سے غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک تو گزشتہ 16 دسمبر کو پشاور میں واقع آرمی پبلک سکول میں 136 سے زائد معصوم اور نوجوانی کی عمر کو پہنچنے والے طالب علم بچوں کا نہایت درجہ وحشیانہ قتل، جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور عالمی سطح پر بھی اس کی غیرمعمولی مذمت اور اظہار افسوس کیا گیا ہے۔ اس واقعے نے ہماری سلامتی کی پالیسی کے بارے میں کئی تشویشناک سوالات اٹھائے ہیں۔ دوسرے اس بنا پر بھی اس اجلاس کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ معمول کی روایت اور پروٹوکول سے ہٹ کر وزیراعظم جی ایچ کیو گئے ورنہ ایسے اجلاس عموماً وزیراعظم ہاو¿س میں منعقد ہوتے ہیں۔ اجلاس کے فیصلوں کو شاید ان کے حساس ترین ہونے اور حالات کی نزاکت کے پیش نظر منظرعام پر نہیں لایا گیا لیکن آثار و شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک بھر سے دہشت گردی کی جڑیں اکھاڑ دینے کی خاطر اور پاک افغانستان سرحد کے پرے ہونے والی پاکستا ن دشمن کارروائیوں کے حوالے سے سنجیدہ اور گہرے غوروفکر کے بعد کچھ امور یقینی طور پر طے پائے ہیں۔ان میں دہشت گردی کے خلاف تمام آئینی رکاوٹوں کو دور کرنا اور قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے ورکنگ گروپ کے قیام کے علاوہ دہشت گردوں پر فوری مقدمات چلانے کے لئے فوجی عدالتوں کا قیام، ان کے خلاف ملک بھر میں جاری اقدامات کے اندر تیزی لانے کی ضرورت اور افغانستان میں پاکستان دشمن کارروائیوں کے مکمل خاتمے کی خاطر کابل حکومت اور امریکہ سے روابط جیسے امور شامل ہیں۔ امریکہ نے جمعہ کی شام افغان صوبے ننگرہار میں پاکستانی طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ سرزمین افغاناں پر یہ حملے پاکستان کے ایماءپر ہو رہے ہیں۔ جمعہ کے روز امریکی دفتر خارجہ کے ایک بیان میں یقین دلایا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان کے ساتھ تعاون کے دائرہ کار کو بڑھایا جا رہا ہے۔ یہاں پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جی ایچ کیو میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی بھی شامل تھے جنہوں نے اسی روز پارلیمانی نمائندوں پر مشتمل خصوصی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت بھی کی جو کئی گھنٹے جاری رہا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی رہنماو¿ں اور قومی سلامتی کے امور پر فیصلہ ساز قوتوں میں ایک رابطہ اور باہمی تبادلہ خیال کا ارادہ پایا جاتا ہے۔ قوم ان تمام تر کارروائیوں سے توقع رکھتی ہے کہ اسے جلد ہی ایک ایسا ایکشن پلان ملے گا جس کی پشت پر قوم کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کی آرائ، حکومت کی سوچ اور عسکری قوتوں کی حکمت عملی کے اجزائے ترکیبی شامل ہوں گے اور یہ ایکشن پلان نہ صرف پوری طرح مینڈیٹ یافتہ ہو گا بلکہ قابل عمل بھی بلکہ اس حد تک قابل عمل کہ اس کے نتائج جلد برآمد ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمانی و عسکری قوتیں آخر کار لیکن جلد از جلد جس ایکشن پلان پر اتفاق کر لیں گی اس کے الفاظ اور روح پر عمل بھی فوری بنیادوں پر اسی جانفشانی کے ساتھ ہو گا۔ محض منصوبے تیار کر لینا وہ بھی ایسے وقت پر جب کہ مصیبت اور تباہی کے بھوت نے ہمارے سروں پر ناچنا شروع کر دیا ہے کوئی بڑا کام نہیں۔ لازم ہے کہ اس پر مو¿ثر طریقے سے عمل بھی ہو۔ نتائج جلد از جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں تاکہ قوم کو یک گونہ اطمینان نصیب ہو کہ اس کے پالیسی ساز سروں پر لٹکتی ہوئی تلوار کی مانند درپیش چیلنج سے کماحقہ باخبر بھی ہیں اور اسے جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی خاطر روبہ عمل بھی۔ یہ لمحہ موجود کے اندر پاکستان کے حکمرانوں کی اہم ترین ذمہ داری ہے جس سے عہدہ برآ ہونا ازبس لازم ہو چکا ہے۔ یہ مرحلہ ہماری تمام کی تمام قیادت کے لئے سخت ترین امتحان کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ اس سے پوری طرح عہدہ برآ ہو کر ہی درپیش سنگین ترین صورت حال کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ انہیں علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے :
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی
حکومت، پارلیمانی پارٹیاں اور عسکری ماہرین و ادارے مل کر جو ایکشن پلان کر رہے ہیں وہ یقیناًموجودہ حالات سے نمٹنے کے لئے اہم ترین منصوبہ ہو گا۔ پاکستان کی پوری قوم جو سانحہ پشاور کے بعد جس صدمے کا شکار ہے اس کا اظہار کر دیا ہے۔ اب اہل وطن کا فرض ہے کہ ایکشن پلان آنے کے بعد وہ اس کی نہ صرف پوری طرح حمایت کریں بلکہ دہشت گردی کے خاتمہ میں حکومت اور سکیورٹی اداروں کی ہر کارروائی کا ساتھ دیں۔ اس وقت قوم کے ہر طبقے، ہر جماعت، ہر مذہبی گروہ اور فرقے، انسانی حقوق کی تنظیموں، طلباء، وکلاء، علمائے دین اور عوام الناس کو دہشت گردی کے اس بھیانک کھیل سے نجات کے لئے پوری طرح متحد ہونا چاہئے۔ آپریشن اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران سب کو یک جان اور یک آواز ہونا چاہئے۔ سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس امر کو ذہن میں رکھیں کہ ان سے کوئی ایسا عمل نہ ہو جائے جس میں جھول پیدا ہو، ساری کارروائی کو ایکشن پلان کے طے کردہ اصولوں اور حدود میں رکھا جائے۔ سیاست دانوں نے سانحہ پشاور کے بعد جس انداز میں تمام سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر قوم کے مفاد میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے حکومت بھی اس کا احترام کرے اور قوم کو اس سانحہ کے بعد مشکل صورت حال پر قابو پا کر دہشت گردی کے اس عفریت سے نجات دلائے جو کئی برسوں سے اس قوم کا نصیب بنا ہوا ہے۔