لہو رنگ بلدیاتی انتخابات تبدیلی آ نہیں رہی، آ گئی ہے
خیبر پختونخوا کے 24 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوگئے، پولنگ صبح 8 بجے سے شروع ہو کر 5 بجے تک جاری رہی۔ کئی پولنگ سٹیشن پر حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے پولنگ کا عمل بھی روک دیا گیا۔ انتخابات میں41 ہزار 762 نشستوں پر 84 ہزار 420 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ الیکشن کے دوران صوبے کے ایک کروڑ 31 لاکھ سے زائد ووٹرز کو رائے دہی کے استعمال کا حق دیا گیا۔ واضح رہے بلدیاتی انتخابات کے سرکاری نتائج کا اعلان 7 جون کو ہوگا۔ صوبے کے 24 اضلاع پشاور، ایبٹ آباد، بنوں، بٹگرام ، بونیر، چارسدہ، چترال، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو، ہری پور، کرک، کوہاٹ، لکی مروت، لوئر دیر، مالاکنڈ، تورغر، مانسہرہ، مردان، نوشہرہ، ضلع شانگلہ، صوابی، سوات، ٹانک اور دیر بالا میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔
یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے پہل کرتے ہوئے وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالتے ہی90 روز میں بلدیاتی اتخابات کا اعلان کرکے دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اس قسم کے بیانات جاری کرنے کی ترغیب دی کہ ’کارکن بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں کریں‘لیکن عملاًصوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ تقریباً17 ماہ تک عمل نہ کر سکے۔ یہ امر لائق تبریک ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت خیبر پختونخوا کی حکومت نے ”حسب وعدہ“ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا اور اسی حکمنامے نے پنجاب اور سندھ میں بھی امکانات روشن کر دیے ہیں اور تادم تحریر پی ٹی آئی کو واضح برتری حاصل ہے۔ اگرچہ تناسب کے لحاظ سے 2013ءکے چناو¿ کے مقابلے میں گراف نیچے گرا ہے لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ اس دوران امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لئے معیاری اقدامات نہیں کئے جا سکے اور خیبر پی کے کے کئی شہروں میں پولنگ سٹیشن پر سیاسی جماعتوں کی ہاتھا پائی، لڑائی جھگڑوں، فائرنگ کے واقعات میں 11 افراد جاں بحق اور بچوں، خواتین، بچوں سمیت درجنوں زخمی ہوئے۔کے پی کے میں حالات کی کشیدگی پر قابو پانے کے لیے صوبائی حکومت نے اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے ا±لٹا یہ کہا کہ انتخابات کے دوران امن و امان کو قائم رکھنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ا±ن کا یہ بیان یقیناًحقائق کے منافی ہے۔ یہ درست ہے کہ پولنگ کے دوران اتنی گڑ بڑ نہیں ہوئی جتنی نتائج کی آمد کے بعد اس وقت ہوئی جب فاتح امیدوار جلوس اور ریلیاں نکال رہے تھے اور اس دوران فائرنگ کے واقعات ہوئے اور پر امن انتخابات کا امیج قائم نہ ہو سکا۔ صوبہ کے پی کے کی حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ 31 مئی 2015ءکے بلدیاتی انتخابات میں جتنی ہلاکتیں ہوئیں ا±تنی ہلاکتیں شاید کسی بھی عام انتخابات یا بلدیاتی انتخابات میں نہیں ہوئیں۔ صوبہ کے پی کے میں 2005ءکے بلدیاتی انتخابات اور2013ءکے عام انتخابات میں بھی اس طرح ناخوشگوار مناظر دیکھنے میں نہیں آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولنگ سٹیشن کی حدود سے باہر بد امنی پر قابو پانا بہرطور پی ٹی آئی کی صوبائی حکمران جماعت کی ذمہ داری تھی۔ اس دوران اے این پی کے لیڈر میاں افتخار کی گرفتاری نے بھی صوبائی حکومت کی غیر جانبداریت پر محتاط حلقوں کو بھی انگشت اعتراض بلند کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ان کی گرفتاری باقاعدہ تفتیش سے پہلے ہی عمل میں آ گئی اور جبکہ وقوعہ کے فوری بعد اور یکم جون 2015ءکو عدالت میں مقتول کے والد نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس نے میاں افتخار کا نام ایف آئی آر میں درج نہیں کرایا۔ پھر یہ کس کا کام ہے ’انصاف سب کے لیے ‘کی نعرہ لگانے والی جماعت کے عہدیداران سے عوام الناس یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک طرف تو افتخار کی قتل کے مقدمے میں گرفتاری ایف آئی آر کے فوراً بعد ڈال دی گئی جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر عنایت اللہ گنڈا پور کے خلاف پولنگ سٹیشن سے بیلٹ بکس ا±ٹھا کر لے جانے کے انتہائی خطرناک جرم کی ایف آئی آر تو درج ہو گئی لیکن انہیں گرفتار نہ کرنے کا عذر یہ پیش کیا گیا کہ تفتیش مکمل کرنے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ کیا پی ٹی آئی کی قیادت کے ذہن میں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے نئے پاکستان کا یہی تصور ہے؟
31مئی کے دن صبح سے شام تک پولنگ سٹیشنز کی حدود میں جو ناخوشگوار واقعات جنم لیتے رہے، کیا وہ نئے خیبر پختونخوا کی تصویر پیش کر رہے تھے۔ یہ امر بھی انتہائی ناپسندیدہ ہے کہ میاں افتخار کی گرفتاری کے عمل کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ا±ن پر حملہ کرنے کی کوشش کی جسے میاں افتخار قاتلانہ حملے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ میاں افتخار نے یکم جون کو عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ باچا خان کے پیروکار ہیں جو عدم تشدد کی سیاست کا پرچارکرتے رہے۔ میں کسی کے بیٹے کو قتل کرنے کی جرات کیسے کر سکتا ہوں جبکہ میرا اپنا بیٹا دہشت گردی کے واقعہ میں زندگی ایسی بیش بہا متاع سے محروم ہو چکا ہے۔ یہ سنگین شکایت بھی موصول ہوئی ہے کہ پشاور کے تھانہ ریگی میں ایک ایم پی اے پولنگ سٹیشن کے اندر بیٹھ کر ٹھپے لگا رہا تھا کمشنر پشاور نے اس پر پولیس کے سربراہ کو خط بھی لکھا ہے کہ ملزم کو گرفتار کیاجائے۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟
یہاں اس امر کا ذکر از بس ضروری ہے کہ آئندہ چند ماہ بعد پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ پنجاب حکومت کو کے پی کے کی حکومت کے زیر سایہ ہونے والے انتخابی نقائص سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ پنجاب میں دوران انتخابات اسی معیاری چوکسی کا مظاہرہ کیا جائے گا جس کا مظاہرہ حکومت پنجاب نے جمعہ کو زمبابوے کی ٹیم کے میچ کے دوران کیا۔ اسی طرح سندھ حکومت کو بھی زیادہ احتیاط بروئے کار لانا ہو گی۔ دریں چہ شک کہ بلدیاتی نمائندوں کے انتخاب کے لئے الیکشن کرانا صوبوں کی آئینی ذمہ داری ہے اسے پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کو بلا تاخیر پورا کرنا چاہئے۔ بلدیاتی اداروں میں منتخب نمائندے آنے کے بعد صوبائی حکومتیں چھوٹے معاملات کی نگرانی اور ان میں بہتری لانے کی ذمہ داری سے آزاد ہو جائیں گی اور یہ ذمہ داری بلدیاتی نمائندے سرانجام دیں گے۔ عوامی حلقوں کی خواہش ہے کہ اب پنجاب، سندھ اور وفاق میں بھی بلدیاتی انتخابات بہرصورت مقررہ وقت پر ہوں تا کہ رائے دہندگان گو مگو کی کیفیت سے باہر نکل سکیں۔ یہ شکایت زبان زد عام ہے کہ سندھ اور پنجاب میں برسراقتدار جماعتیں حلقہ بندیوں کے سلسلہ میں صرف اپنے لوگوں ہی سے مشورہ کر رہی ہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس میں دوسری جماعتوں کو بھی شریک اور شامل کیا جائے۔ دونوں صوبائی حکومتوں کو مکمل غیر جانبداری برتنی چاہیے اور اپنے امیدواروں کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ انہیں حکومت کی حمایت حاصل ہے۔میں سمجھتا ہوں اگر تہیہ کر لیا جائے تو ان رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے اور انتخابات طے شدہ پروگرام کے مطابق منعقد کئے جا سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بغیر جمہوریت لولی لنگڑی اور نامکمل ہے۔
دوسی طرف کے پی کے میں جو کچھ ہوا ہے اگر اسی کا نام تبدیلی ہے تو خدارا ہم پاکستانیوں کو ایسی تبدیلی نہیں چاہئے ۔ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ اپنا قبلہ درست کریں اور حالات کا ایک بار از سر نو جائزہ لیں کہ دشمن ہماری صفوں میں موجود ہے اور ہمیں اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے یہ نہ ہو کہ وہ آسانی سے وار کر جائے اور ہم دیکھتے رہ جائیں۔