قومی یکجہتی کے بعد ”اگر مگر“ کیوں؟
پرانے کیلنڈر دیواروں سے اتار دیئے گئے، 16 دسمبر، اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے ۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کا حملہ، صرف حملہ نہیں وحشیانہ حملہ، 132 بچوں سمیت 141 افراد شہید ہوگئے۔ ساتوں دہشت گرد مارے گئے لیکن کتنا گہرا زخم لگا کر گئے۔ پھول سے بچوں کے تابوت کتنے بھاری تھے کہ پوری قوم کے کندھے جھک گئے۔ ایسی افتاد آن پڑی کہ لوگ سال رفتہ کا تجزیہ بھول گئے۔ سوال اب بھی باقی ہے کہ کیا سال رفتہ کے دوران جمہوریت مضبوط و مستحکم ہوئی یا کمزور، حکومت مضبوط ہوئی یا پاو¿ں تلے سے زمین کھسکتی رہی۔ سیاستدان سدھرے یا نہیں؟ کچھ پتا نہیں لیکن ”ایسا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے“۔ سچ پوچھیے تو سیاستدان نہیں بدلے۔ ان کا کردار وہی ہے۔ یعنی کوئی کردار نہیں، 2014ءسیاسی عدم استحکام، دھرنوں، قتل و غارت، دہشتگردی اور مارشل لاءکے وسوسوں میں گزر گیا، مگر سیاستدان نہیں سدھرے۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے قومی ایکشن پلان بنا لیا گیا۔ آل پارٹیز کانفرنس میں سبھی شامل تھے۔ بھانت بھانت کی تجاویز، اپنی اپنی بولیاں، پندرہ دن لگا دیے دہشت گرد اس تاخیر پر کتنے مطمئن ہوئے ہوں گے۔ قوم اپنے مشترکہ دشمنوں کے خاتمے کے لیے بھی متحد نہیں ہو پائی۔ غداری کی طرح دہشت گردی کی تشریح (DEFINATION) ابھی تک متعین نہیں ہوسکی۔ جنہوں نے دہشت گردی کی ان کے کئی حامی کئی مخالف، مولانا عبدالعزیز نے کھلی حمایت کی۔ سوشل میڈیا میدان میں آیا تو ”بنکر“ میں چھپ گئے۔ مذہبی گروپس اوپر سے مذمت اندر سے حمایت کرتے رہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام پر سرپھٹول ہوتے ہوتے رہ گیا۔ کیا کیا تضادات سامنے نہیں آئے، سب کو اپنی فکر پڑ گئی۔ فوجی عدالتوں میں کمزور استغاثہ پولیس کا روز بدلتا مو¿قف، ادھر ادھر کی مداخلت اور لمبی تاریخیں لے کر کیس کمزور کرنے اور پیروی سے گریز کی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ ضرور ہے کہ فوجی عدالت کی منظوری چیف جسٹس صاحبان ہی دیتے ہیں لیکن فیصلے جلدی ہوجاتے ہیں۔ اتنے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات ناگزیر تھے۔ پھر ہچر مچر کیوں، آئینی موشگافیاں شروع کردی گئیں۔ قومی ایکشن پلان بھی پوری سیاسی قیادت کے مشورے سے بنا تھا جس میں فوجی عدالتوں کا قیام بھی شامل تھا۔ پھر اس پلان پر ایکشن میں منافقت کیوں دکھائی گئی۔ جن جماعتوں نے بحث مباحثے میں اتنے دن ضائع کردیئے وہ اس وقت کہاں تھیں جب ان کے لیڈر وزیر اعظم اور آرمی چیف کے سامنے بیٹھے ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ 11 گھنٹے کے اجلاس میں ہاں ہاں کرتے رہے لیکن باہر نکلتے ہی ناں ناں کی رٹ لگانے لگے۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، اے این پی اول اول ایکشن پلان میں پیش پیش رہیں لیکن بعد میں تحفظات کے اظہار میں بھی انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اعتراض ہوا کہ فوجی عدالتیں مخصوص عرصہ اور مخصوص دائرہ کار میں بنائی جائیں۔ سیاستدانوں، دانشوروں اور میڈیا افراد کی سماعت ان کے دائرہ کار میں نہ ہو، صرف دہشت گردوں کی سماعت کریں اور سزائیں دے دیں۔ بعد کے دنوں میں کہا گیا کہ آئینی ترمیم نہ کی جائے بلکہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کردی جائے۔ اعتزاز احسن، رضا ربانی، روزانہ کی بنیاد پر بیانات دیتے رہے۔ الیکٹرانک میڈیا کا کردار انتہائی مایوس کن اور قومی مفادات کے منافی رہا۔ 2 جنوری کی فیصلہ کن اے پی سی سے ایک روز قبل پندرہ سولہ چینلز پر صرف فوجی عدالتوں کی تشکیل پر ٹاک شوز ہوتے رہے۔ کیسے کیسے بزرجمہور گلے پھاڑ پھاڑ کر دلائل دیتے اور قوم کو کنفیوز کرتے رہے۔ ایسے ایسے لوگوں کو جن کا قومی سلامتی کے امور سے دور کا واسطہ نہیں گھنٹوں دلائل دیتے دیکھ کر دکھ اور حیرت ہوئی۔ ان میں ابھرتے سیاستدان اور زندگی کی ریٹائرمنٹ سے قریب تر سیاستدان سبھی شامل تھے۔ بالآخر وزیر اعظم نواز شریف نے 2 جنوری کو سابق صدر آصف زرداری سمیت پوری قومی قیادت کو پھر وزیر اعظم ہاو¿س میں جمع کرلیا۔ اندرونی اور بیرونی کہانیوں سے قطع نظر 5 گھنٹوں کی طویل بحث کے بعد فیصلہ کرلیا گیا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئینی ترامیم کی جائیں گی۔ آرمی ایکٹ میں بھی ترمیم ہوگی۔
کیا جرا¿ت مندانہ فیصلے صرف نواز شریف ہی کا مقدر ہیں؟ سب کو ایک جگہ بٹھائیں۔ گیارہ گیارہ گھنٹے سر کھپائیں ۔ سیاستدانوں کو ”راہ راست“ پر لائیں۔ اور سیاستدان باہر نکلتے ہی مخالفت کی گردان شروع کردیں۔ سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں ،سب کو مشترکہ سوچ اور اتحاد سے ان ”پھول سے بچوں“ کے خون کا حساب چکانا ہے جنہیں قبروں میں اتارتے ہوئے آسمان بھی رو دیا تھا۔ اچھی بات ہے عمران خان نے دھرنا سیاست بھلا کر اے پی سی میں شرکت کی اور قومی ایکشن پلان کو آخری شکل دینے میں مثبت کردار ادا کیا۔ لیکن اس موقع پر ان کے دست راست شاہ محمود قریشی کی جانب سے جوڈیشل کمیشن، انصاف نہ ملنے اور دھرنوں کا ذکر غیر ضروری اور بے وقت کی راگنی کے مترادف تھا۔ دھرنوں پر30 کروڑ سے زائد اخراجات کر کے بھی صبر نہیں آیا۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمہ تک تمام سیاستدانوں کو یکسو ہوکر پلان پر عملدرآمد کے لیے متحد رہنا ہوگا۔ شیخ رشید کو شامل نہیں کیا گیا، اچھا ہوا کچھ بعید نہ تھا کہ وہ وزیر اعظم ہاو¿س میں بھی جلاو¿ گھیراو¿ مارو مار دو کے نعرے بلند کرنے لگتے۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سنجیدہ طبقوں کی طرف سے جو تجاویز آئی ہیں۔ ان پر غور و فکر اور فوری عملدرآمد ضروری ہے۔ عملدرآمد کے دوران اونگھ آگئی تو خدانخواستہ کوئی اور سانحہ رونما ہوسکتا ہے۔
مذہبی جماعتوں کے سربراہوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا ان کے احتجاج اور منافقانہ رویہ ان کو زیب دیتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب انسانی خون کو بہایا جا رہا ہو ”ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ”ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے“سمجھو اور پھر فیصلہ کرو۔