پاکستان میں سکولزاور تعلیم کی حالت زار!!!
ہماری مساجد، مدارس ، مراکز اور خانقاہیں ، بازار ، ذرائع آمدورفت عرصہ دراز سے ویسے ہی غیر محفوظ تھے۔ اب پشاور میں آرمی پبلک سکول پر کئے جانے والے حملے کے بعد جو تصویر مستقبل کی سامنے نظر آ رہی ہے اس میں اب ہمارے تعلیمی ادارے جن میں یو نیو رسٹیز ،کالجز اورسکولز شامل ہیں بھی محفوظ نہیں رہے۔ہمارے تعلیمی اداروں کو کسی دہشت گردی کے واقعہ سے بچانے کے لئے موسم سرما کی چھٹیوں میں تقریباًچار گنااضافہ کر دیا گیا تھا ۔حکومت تعلیمی ادروں کو سکیورٹی کیسے فراہم کرے، اس کے لئے کیا کیا اقدامات کیے جائیں۔یہ ہم سب کو مل کر سوچنا ہوگا، کیونکہ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے پاس نہ تو اتنی نفری موجود ہے اور نہ ہی ان کے پاس اتنے وسائل ہیں جو ہر ادارے کو سکیورٹی فراہم کر سکیں۔ قوم اور مستقبل کے نو نہالوں کے لئے ہماری کمزور اور معاشی حالت، کرپشن کا نا سور ہمیں اس قابل نہیں چھوڑتا کہ ہم انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے بہترین پ±ر امن اور سازگار ماحول فراہم کر سکیں۔ لیکن مملکتِ پاکستان میں دوہرا معیار دیکھیں کہ تبدیلی کی دعویدار پی ٹی آئی کی حکومت کے پی کے میں 273اہم شخصیا ت کی حفاظت کے لئے سالانہ 28کروڑ روپے کی بھاری رقم خرچ کر رہی ہے گو کہ ان میں ڈیرہ اسما عیل خان سے تعلق رکھنے والے ایم این اے جن پر تین بار خود کش حملے ہو چکے ہیں کی سکیورٹی پر خرچ ہونے والی ایک کروڑ چھ لاکھ کی رقم بھی شامل ہے باقی تقریباً 27کروڑ کی رقم صوبے کی اہم شخصیات پر خرچ کی جا رہی ہے جن میں سے سپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر پر سالانہ 80لاکھ روپے، سابق وزیر علیٰ اکرم خان درانی کی سکیورٹی پر مامور 35پولیس اہلکاروں پر سالانہ ایک کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ صوبے میں ممبران اسمبلی کی تعداد 123ہے لیکن 273شخصیات کو VIPکا درجہ دے کر سرکاری خزانے کوسالانہ 28کروڑ روپے کا چونا لگایا جا رہا ہے۔یہ سب کچھ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کے ان دعووں کے خلاف ہے جس میں انہوں نے صوبے سے VIP کلچر کو ختم کرنے کا کہا تھا۔ اور آج جب خود عمران خان اور ان کی نوبیاہتا بیوی پشاور میں آرمی پبلک سکول میں تشریف لائے تو خدا کی پناہ پروٹوکول کے نام کی دھجیاں بکھیر دی گئیں یہ لفظ چھوٹا پڑتا نظر آتا تھا اس پر سونے پہ سہاگہ شہید بچوں کے والدین نے بھرپور احتجاج کیا اور ان کی خوب درگت بنائی گئی مگر کیا کرتے بیچارے اپنے پیاروں کا غم لیے پولیس کی لاتھیوں کا نشانہ بن گئے ۔
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اور جن چیزوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا ہے ان میں مہنگائی ، کرپشن ، بے روزگاری ، اقربا پروری کے ساتھ ساتھ ہمارے سیا ستدانوں کی تنخواہوں ، مرا عات اور VIP کلچر شامل ہے۔ ہر حکومت بر سر اقتدار آنے پر اس کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے لیکن چلتی اس کے الٹ ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور کرپشن کے باعث عوام بہت جلد ہر آنے والی حکومت سے بد زن ہو جاتے ہیں۔ وہ الیکشن میں اپنی نفرت کا اظہار مخالفت میں ووٹ ڈال کر کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے سیاستدان اپنے VIP کلچر کو کسی طور پر ختم کرنے کے لئے آمادہ نظر نہیں آتے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ سیا ستدان خصوصی طور پر ہٹ لسٹ پر ہیں اس لئے انہیں Protect کیا جاتا ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں بناتے ہی کیوں ہے یا ایسے اقدامات اٹھاتے ہی کیوں ہیں کہ جن کے باعث وہ جلد غیر مقبول ہو جاتے ہیں۔جس کے باعث وہ سکیورٹی فورسز جو پورے ملک کے عوام کے جان و مال کی حفاظت پر مامور ہوتی ہے اس میں سے اچھی خاصی تعداد کو صرف چند ہزار لوگوں کی سکیورٹی پر مامور کر دیا ہے۔آخر عوام کب تک ان نا اہل کرپٹ حکومتوں اور سیاست دانوں کا بوجھ اپنے جان و مال کی قربانی دے کر اٹھاتی رہے گی۔حکمران تو عوام کے خادم ہوتے ہیں۔لیکن ہمارے ملک میں نظام الٹا ہے۔یہاں پر 20کروڑ عوام ان کے خادم ہوتے ہیں۔10 کروڑ سے زائد لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔آئے دن کی مہنگائی ان کی تعداد میں بتدریج اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔عوام کے پاس بجلی، گیس کے بل اد اکرنے کی رقم نہیں ہوتی۔ ان کی تنخواہوں میں اضافہ کچھوے کی چال کی طرح جبکہ ہمارے حکمرانوں کی تنخواہوں میں بجلی کی سی تیزی سے اضافہ ہوتاہے۔جس ملک میں تعلیم پر 2فیصد صحت پر 5فیصد خرچ کیا جائے، جہاں کی نصف سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی ، روزگار اور آمدورفت کے بہتر وسائل میسر نہ ہوں،جہاں لاکھوں کی آبادی پر ایک ڈاکٹر اور ایک مجسٹریٹ دستیاب ہو،جہاں کا ہر شہری 90ہزار بیرونی قرضوں کا مقروض ہو، جہاں 12سے 20گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہوتی ہو، وہاں کے حکمران سرکاری خزانے کو عوام کو بنیادی حقوق و وسائل فراہم کرنے کی بجائے ما ل مفت دل بے رحم کے مصداق خرچ کریں جبکہ انہیں کفایت شعاری اور سادگی کو اپنانا چاہئے۔