سانحہ کراچی سیاسی انتشار، پنجاب حکومت کیلئے لمحہ فکریہ
کراچی میں پیش آنے والے سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کے کچھ روز بعد ہم نے انہیں کالموں میں اس حادثے کے پیچھے کارفرما طاقتوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی تھی کہ کس طرح ایک لسانی جماعت اور اس کے مالی اخراجات پورا کرنے کے لیے اس کے مالیات ونگ کے بھتہ خوروں نے فیکٹری مالکان سے بھتے کی رقم پر مک مکا نہ ہونے کی وجہ سے257 سے زائد لوگوں کی موجودگی میں فیکٹری کو آگ لگا دی اور جس کے لیے ایسا خطرناک آتش گیر مادہ استعمال کیا جس نے کچھ ہی لمحوں میں زندہ لوگوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ۔
بھتہ نہ ملنے پر اس طور غصے کا اظہار کیا کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو ایک گھنٹے کے بعد بھی موقع پر نہ پہنچنے دیاگیا جس کی وجہ سے تباہی میں مزید اضافہ ہوا ۔ اس ساری تباہی اور سینکڑوں لوگوں کو زندہ جلانے کے بعد بھی ان لوگوں کو بھتے کی رقم نہ ملنے کا شدید غصہ تو جو انہو ںنے فیکٹری مالک کے خلاف مقدمہ درج کراکے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ، سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی حاصل کرنے کے چند روز بعد ہی جماعت کے ایک تگڑے رہنما نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے مالکان کی ضمانت دوبارہ منسوخ کرادی حتیٰ کہ سابق وزیراعظم کی مدد سے لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت حاصل کرنے کے بعد جماعت کے اسی تگڑے رہنما نے مداخلت کی تو بے چارے وزیراعظم کو بھی اس معاملے سے پیچھے ہٹنا پڑا اور یوں مقدمہ ختم کرانے کے لیے اس اعلیٰ ترین عہدیدار کے فرنٹ مین نے مالکان سے 15کروڑ روپے وصول کیے ۔
یعنی257افراد بھی زندہ جلے، فیکٹری بھی تباہ ہوئی اور بھتہ کی رقم بھی وصول ۔
اڑھائی سال سے زائد عرصہ گزر نے کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے سندھ ہائی کورٹ میں رینجرز کی طرف سے جو رپورٹ جمع کرائی ہے اس کے ذمہ داروں کا تعین تو سانحے کے اگلے روز ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کرلیا تھا لیکن اتنا عرصہ اس رپورٹ کو فائلوں کی زینت کیوں بنایاگیا یہ ایک لمحہ¿ فکریہ ہے ۔
قارئین !اس کالم کو تحریر کرنے کے دوران ٹیلی ویژن سکرین پر رینجرز کی طرف سے سانحہ12مئی میں ملوث ٹارگٹ کلر کی گرفتاری کی خبر بھی نشر ہورہی ہے جس نے کئی افراد کے قتل کا اعتراف بھی کیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق اس کا تعلق بھی اسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہے ۔
سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رینجرز کی رپورٹ اور ٹارگٹ کلر کی گرفتاری کے بعد کئی عرصے سے شہر قائد میں جاری خون کا بازار گرم رکھنے والے شرپسند عناصر کے چہروں سے نقاب اٹھتے چلے جارہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سمیت عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان لوگوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرکے قرار واقعی سزا دیں اور کیا ہی اچھا ہو کہ یہ تمام کیسز فی الفور فوجی عدالتوں کو ریفر کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اس پر فیصلے کیے جائیں اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکے ملک دشمن اور عوام دشمن عناصر کا قلع قمع کیا جائے ۔
قارئین کرام!مجھے بہت افسوس کہ ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ پنجاب جسے انتظامی معاملات اور امن وامان کے حوالے سے باقی صوبوں پر امتیاز حاصل تھا اب وہ کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ تقریباً ہر سرکاری دفتر میں کرپشن کا جن سر چڑھ کے بول رہا ہے ۔ ”سانو وی کج لاﺅ“ کی پالیسی کو اختیار کیے افسران اس شہری کے کام کو فوقیت دیتے ہیں جس نے ان کی مٹھی گرم کی ہو ، نہیں تو اپنے جائز کام کرانے کے لیے عوام کئی دن تک ذلیل وخوار ہونے کے بعد کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے دوبارہ آنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ۔
افسر، افسر شاہی کے نشے میں اتنے مست ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے انتظامات معاملات کو دیکھنے والے محکمہ داخلہ کے دفتر جہاں پہلے حساس فائلیں چوری ہوئیں اب ایڈیشنل سیکرٹری انٹرنل سکیورٹی کے دفتر میں بھی چوری ہو گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کمشنر ، ڈی سی اوز اور تمام انتظامی ذمہ داران پٹرول کے سستا ہونے کے باوجود اشیا خوردونوش کی اشیا کے نرخوں میں کمی کرانے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔
محسوس ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک بیوروکریسی اور افسر شاہی کا احتساب کرنے والے متحرک نظر آنے والے خادم اعلیٰ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ خادم اعلیٰ روزانہ ویڈیو لنک کے ذریعے کمشنرز اور ڈی سی اوز سے خطاب کرتے ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں اشیاءکی قیمتوں کی کمی میں کیا اقدامات کیے گئے ہیں ۔ یہ سب ویڈیو اجلاس سپیشل برانچ کے ایک اہلکار کی رپورٹ پر ہوتے ہیں جو خود دفتر میں بیٹھا ہی رپورٹ مرتب کرکے اپنے افسر کو دیتا ہے اور پھر یہ افسر خادم اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کو ویڈیو لنک پر ہی بریف کرتے ہیں ۔ اس طرح عملی طور پرپنجاب کی تمام حکومتی مشینری دفاتر اور کانفرنسز ہال کی حد تک جمع تفریق میں اپناتمام دن برباد کردیتی ہے ۔ افسر شاہی کی نااہلیوں کی وجہ سے ایک طرف تو عوام ذخیرہ اندوزوں اور مہنگائی مافیاز کے ہاتھوں لٹتی چلی جارہی ہے جبکہ دوسری طرف خادم اعلیٰ کو سب اچھا ہے کی رپورٹ پیش اور کھانے پینے کی اشیاءکو گرم اور ٹھنڈا رکھنے کے لیے 33 لاکھ روپے کا کنٹینر خرید کے ان کو بھی اپنے جیسا بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے جس سے پنجاب حکومت کا مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے کی جانب دکھائی دے رہا ہے ۔ اگر خادم اعلیٰ پنجاب حقیقتاً امن، انصاف اور سکون کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں تو انہیں ماڈل ٹاﺅن کے محلات سے باہر نکل کے مارکیٹوں اور بازاروں کا ہنگامی دورہ کرکے مہنگائی مافیا اور ان کے آلہ کار سرکاری افسروں کی فرعونیت کو کچل کے سرکاری دفاتر میں کرپشن اور رشوت کا سدباب کرکے انہیں عوام کااصل معنوںمیں خادم بنانے کی ضرورت ہے ۔
چند دن پہلے مجھے بذات خود کارڈیالوجی میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں یہ منظر دیکھ کر میری طبیعیت مزید خراب ہوئی کہ دل کے مریض افراد لائنوں میں لگے اپنی باریوں کا انتظار کررہے ہیں۔ایک نرس دوا بھی دیتی اس کا اندراج کرنا اور بلڈ سیمپل لینا بھی اسی کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ایمرجنسی میں بستروں کا عالم یہ کہ ایک بسترپر تین تین مریض پڑے ہیں ڈاکٹرز بیچارے ایک مریض کو دیکھیں تو دوسرے کے لواحقین لڑتے ہیں کہ ہمارے مریض کو دیکھو ۔کس عذاب میں مبتلا ہے ہماری قوم۔خادم اعلیٰ صاحب حقیقی خادم بنیں نہیں تو اس نام کو اسی نام کیساتھ تبدیل کر لیں جو ماضی میں وزیراعلیٰ لکھا جاتا تھا تا کہ خادم اور اعلیٰ میں فرق واضح ہو سکے۔