Tayyab Mumtaz

جنرل راحیل شریف کا بھارت کو دو ٹوک انتباہ

پاکستان کی مسلح افواج کے سپہ سالار نے کہا ہے کہ بھارت کی سرحدی جارجیت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باو¿نڈری پر بھارت کی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علاقائی امن و استحکام متاثر ہو رہا ہے۔ بھارتی فورسز کی جارحیت کا مقصد دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سے توجہ ہٹانا ہے، بھارت کسی خوش فہمی میں نہ رہے قوم اور پاک فوج وطن عزیز کے دفاع کے لئے متحد ہیں۔ پاک فوج کے سپہ سالارجنرل راحیل شریف نے ان خیالات کا اظہار سیالکوٹ ورکنگ باو¿نڈری کے دورہ کے موقع پر فوج کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بھارتی فوج کی مسلسل اور بلااشتعال سرحدی خلاف ورزیوں ، فائرنگ اور گولہ باری پر سپہ سالار خود ہاں پہنچے تھے۔ آرمی چیف نے اس موقع پر بھارتی جارحیت اورگولہ باری سے متاثرہ شہریوں سے بھی ملاقات کی اور ان کے بلند حوصلہ کو سراہا۔ سپہ سالار نے اس موقع پر بھارتی گولہ باری سے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کیا۔ آرمی چیف نے اگلے محاذ کا دورہ بھی کیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ورکنگ باو¿نڈری پر فوجی جوانوں سے خطاب میں جو کچھ کہا ہے وہ بالکل درست اور اصل صورت حال کے مطابق ہے۔ پاکستان جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے بھارت نے مشرقی سرحد پر مسلسل چھیڑچھاڑ کی ہے۔ پاکستان نے افغان سرحد پر اس وقت تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوج دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے لگائی ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آکر طالبان سے پرخلوص مذاکرات کا عزم کیا اور اس مقصد کے لئے وزیرداخلہ کو پیشرفت کرنے کا کہا گیا۔ پاکستان نے ایک کمیٹی بھی بنائی طالبان سے مذاکرات جاری تھے مگر کالعدم تحریک طالبان نے مذاکرات کے دوران بھی دہشت گرد کارروائیاں روکنے پر اتفاق نہ کیا حتیٰ کہ مذاکرات ختم ہوگئے۔
ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد حکومت اور فوج نے طالبان کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا۔ یہ آپریشن 15 جون 2014ءسے شروع ہوا۔ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی شروع کی جس پر ان کے قدم اکھڑ گئے۔ کئی طالبان عسکریت پسند مارے گئے کچھ پکڑے گئے اور بعض پاکستان سے بھاگ کر افغانستان میں چلے گئے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے دوران فوج نے اسی فیصد سے زائد علاقہ ان دہشت گردوں سے کلیئر کرالیا ہے۔ دہشت گردوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر، ان کے اسلحہ تیار کرنے کے کئی کارخانے اور اسلحہ کے کئی ذخائر تباہ کردیئے اور بھاری مقدار میں اسلحہ وغیرہ قبضے میں لے لیا۔ سانحہ پشاور کے بعد پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے تمام منتخب پارلیمانی جماعتوں کے مشورے سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان بنایا جس پر تمام عسکری ادارے اور حکومت پوری ذمہ داری سے کارروائی کر رہے ہیں۔ بھارت میں 2014ءکے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد سے بھارتی فوج نے کنٹرول لائن اور ورکنگ باو¿نڈری پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کردیا جس پر معاملہ اعلیٰ سطح تک پہنچا۔
بھارت نے اس امر کو فراموش کرکے کہ پاکستان کی مسلح افواج اور حکومت دہشت گردی کے خلاف پوری قوت سے مصروف عمل ہیں اپنی چھیڑ چھاڑ جاری رکھی۔ دسمبر 2014ءمیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پکڑے گئے دہشت گردوں سے ملنے والے شواہد اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے حاصل کردہ حقائق کی بناءپر امریکی حکام کو اپنے دورہ کے دوران حقائق اور ثبوت دکھائے جن میں ان دہشت گردوں کے بھارت سے روابط اور اس سے مدد لینے کے معاملات سامنے آئے تھے۔ امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران بھارت امریکہ دوستی کو خوب الاپا گیا تاہم امریکی صدر اوباما نے بھارت کو خطے میں امن وامان کے لئے پاکستان کے کردار کی اہمیت پر زور دیا اور بھارت سے کہا کہ وہ پاکستان سے گفتگو شروع کرے۔ اسی تناظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم نوازشریف کو آگاہ کیا کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ مارچ کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اب بھارتی سیکرٹری خارجہ پاکستان میں دو رازہ دورے پر آئے اور مودی کا خط نوازشریف کو پہنچایا جو کہ خوش آئند بات ہے۔
پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔ گزشتہ 14 برسوں سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں کھربوں روپے کا مالی نقصان اٹھانے کے علاوہ ہزاروں جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر چکا ہے مگر بھارت مسلسل سرحدی گولہ باری سے پاکستان کو تنگ کر رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ نے بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا جو اعلان کیا ہے وہ بھارت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کوئی گئی گزری ریاست نہیں ہے۔ پاکستان اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور پاکستان کا میزائل نظام بھارت سے کہیں بہتر ہے۔ بھارت کو طاقت کے زعم میں کسی غلط راستے کا تعین نہیں کرنا چاہیے بلکہ دہشت گردی کے خاتمہ کی مہم کے دوران دہشت گردوں کی مدد کرنے کی بجائے پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ سرحدی اشتعال انگیزی سے باز آجائے تاکہ پاکستان دہشت گردی سے نمٹ سکے۔ خطے میں امن ہی دونوں ملکوں کے غریب عوام کی خوشحالی کا راستہ کھول سکتا ہے کیونکہ جنگوں سے مسائل بڑھتے ہی ہیں حل نہیں ہوتے۔ پاکستان اپنے اقتصادی مسائل کا حل چاہتا ہے بھارتی معیشت بھی خراب حالات سے دوچار ہے۔ بھارت کو اب امن کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام کے لئے امن کے راستے خوشحالی کا دروازہ کھل سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button