سینئرز پر الزام تراشی
جب ہم اپنے جنوبی ایشیائی حریف، سری لنکا اور بھارت کی پر اعتماد مہم کو دیکھتے ہیں تو ہمارے دل میں ان کیلئے تحسین کے جذبات کے علاوہ حسد کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ ورلڈ کپ میں شریک پاکستانی ٹیم، سبز وردیوں میں ملبوس پاکستانی کرکٹروں کا ایک ایسا بد ترین مجموعہ ہے جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
اب سوال یہ ہے کہ جس جوہر قابل کا ہم ہر وقت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں وہ کہاں چلا گیا؟ ظہیر عباس، جاوید میاں داد اور انضمام الحق کے جانشین کہاں گئے؟ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ، ہمارے پاس شاندار تیز رفتار گیند باز اور سپنر پیدا کرنے کا ایک کارخانہ موجود تھا۔ اب تو ہمارے پاس ایسے گیند باز موجود ہیں جن کا گیند کرنے کا انداز غیر قانونی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ کھیلنے والا ملک اس وقت زوال کے دورانیے کا شکار ہوتا ہے جب اس کے کھلاڑی اپنے سینئر کھلاڑیوں کے زرد سائے معلوم ہوتے ہیں لیکن کرکٹ کے ہمارے داخلی ڈھانچے کی دگرگوں حالت دیکھ کر ،نئے باصلاحیت کھلاڑیوں کی تلاش عبث معلوم ہوتی ہے۔
بہت سے پاکستانی، سینئر کھلاڑیوں پر الزام تراشی کرتے ہیں جو اب ادھیڑ عمر ہو چکے ہیں اور اس وقت کرکٹ کے معاملات چلا رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری کرکٹ بھی ہمارے معاشرے کے دیگر شعبوں کے مانند زوال کا شکار ہو رہی ہے اور اس ضمن میں کرکٹ کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
ہمارے کرکٹر کے متعلق ایک اور بات قابل غور یہ ہے کہ ان میں سے بمشکل کچھ ہی انگریزی بول سکتے ہیں لیکن یہ تو درست ہے کہ کرکٹ میں مہارت اور انگریزی بولنے کے درمیان کوئی تعلق نہیں لیکن بھارت اور سری لنکا کے کھلاڑی جن کے ممالک کے ماحول بھی پاکستان کے ماحول جیسا ہے کو انگریزی بول چال میں اس قدر مہارت حاصل ہے کہ وہ غیر ملکی صحافیوں کے سوالات کے جوابات نہایت رواں انگریزی میں دیتے ہیں۔
ہماری کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں میں موجود یہ عدم صلاحیت، ہمارے معاشرے کے تمام شعبوں میں زوال کی عکاس ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ یہ ہے کہ ہماری پرانی نسل، ہماری نئی نسل پر تنقید کرتی ہے۔ چند برس پہلے فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے اپنے سالانہ امتحانات کے نتائج کے متعلق ایک جائزہ شائع کیا تو اس جائزے سے یہ معلوم ہوا کہ ہمارے مستقبل کی افسر شاہی بھی مطالعے اور تحقیق کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتی۔
اگر یہ سب کچھ مبالغہ آرائی محسوس ہوتا ہے تو پھر ٹی وی پر نشر ہونے والی گفتگو کے پروگراموں پر ایک نظر ڈالیں ان پروگراموں کے شرکاءکی زبان سن کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں نہ تو اردو بخوبی آتی ہے اور نہ وہ انگریزی میں ماہر ہیں۔
حال ہی میں احمد شہزاد، پاکستان کے افتتاحی کھلاڑی، نے سری لنکا کے بہترین بلے باز، دلشان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن اگر وہ سری لنکا کے بہترین کھلاڑی دلشان سے کرکٹ کھیلنے کی تکنیک سمجھنے کی کوشش کرتے تو یہ ٹیم کیلئے بہت بہتر ہوتا۔
ایک ایسا زمانہ تھا جب پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ جیتنے کیلئے فیورٹ سمجھی جاتی تھی لیکن اب یہ زمانہ ہے کہ ہم ورلڈ کپ میں گھسٹتے گھسٹتے جارہے ہیں۔ اسی طرح ایک زمانے میں ہماری معیشت بھی ہمارے ہمسایوں سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کررہی تھی، پی آئی اے دوسرے ممالک کی فضائی کمپنیوں کیلئے مثال تھی۔پاکستانی نوجوان اس حقیقت پر یقین نہیں کرینگے کہ ایک زمانے میں ترقی پذیر ممالک میںپاکستان کو ترقی کی مثال سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان نے موجودہ ورلڈ کپ میں جس قسم کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اسے کھلاڑیوں کی کارکردگی کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد ہی سمجھا جاسکتا ہے اب تو کرکٹ کے پاکستانی پرستار ، دعا اور معجزوں کی توقعات کے سہارے ورلڈ کپ جیتنے کی امید میں مبتلا ہیں۔
ممکن ہے کہ اب ہم مستقبل میں احمد شہزاد کو صفر پر آﺅٹ نہ ہوتے دیکھیں ممکن ہے کہ پاکستانی کرکٹ بورڈ کے سربراہ ادارے میں ایسے ماہرین لے کر آئیں جو پاکستان کی مقامی کرکٹ کے ڈھانچے کو زندہ کریں ،کرکٹ بورڈ میں ایسے لوگ آئیں جو پاکستان کے سکولوں اور کالجوں میں کرکٹ کی نرسریاں قائم کریں۔