جوتے یا سیاہی افراد نہیں‘ پاکستان کے چہرے پر داغ
عدم برداشت کے فروغ اور ایک دوسروں کو گالیاں دینے کے بعد قومی رہنماﺅں پر جوتے پھینکنا اور سیاہی گرانا معاشرے کی اخلاقی گرا وٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سابق وزیراعلی سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم ہوں یا پھر نواز شریف، قانون دان احمد رضا قصوری ہوں یا پھر خواجہ آصف ،زرداری ہوں یا عمران خان اور علیم خان ،میرے نزدیک یہ جوتے یا سیاہی ان افراد پر نہیں گری بلکہ ان اقدامات سے پاکستان کے مثبت چہرے پر انتہائی سیاہ داغ لگے ہیں۔ شدت پسندی ختم کرنے کیلئے آپریشن ضرب عضب ہو یا رد الفساد، نیشنل ایکشن پلان ہو یا پھر منبر و محراب سے اٹھنے والی آواز سب بے سود نظر آرہی ہیں۔ جس معاشرے میں چور کو عدالتیں سزا نہ دیں اور انہیں ماورائے عدالت مقابلوں میں پار کر دیا جاتا ہو، جس معاشرے میں سالوں سے نا کردہ گناہ کی سزا کا کیس ہی سنا نہ جاتا ہو اور ملزم انصاف کی حسرت لئے سالوں جیل کی کال کوٹھریوں میں پڑے انصاف کے متلاشی ہوں۔ جس معاشرے میں “عدالتیں” ، “سکیورٹی ادارے” “سیاست “کریں اور سیاست دان معاشرے میں بگاڑ ختم کرنے کے بجائے اسے مزید ہوا دیں تو پھر وہاں “جنگل کا قانون “ہی رائج ہو گا۔
میرے نزدیک نوازشریف یا خواجہ آصف پر لاکھ الزامات ہوں مگر انہیں ان جرائم پر سزائیں عدالتوں سے ملنی چاہیے نا کہ اس طرح خصوصاً ملک کے تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم کی خانہ خدا میں تذلیل کرکے پوری دنیا میں پاکستان کے چہرے کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش کی جائے۔ نوازشریف پر رواں ہفتے جوتے لگنے پر شاید مٹھی بھر افراد خوش بھی ہوں مگر ان مٹھی بھر افراد کو کسی صورت یہ اختیار نہیں دینا چاہیے کہ وہ اقوام عالم سے پاکستان کے21کروڑ عوام کو متشدد قوم کا طعنہ سننے پر مجبور کریں۔ آج دنیا خصوصاً ہمارے ہمسائے اس واقعے پر آزادانہ کہہ رہے ہیں “پاکستانی تشدد پسند”قوم ہے۔ ایک شخص نے3 مرتبہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیراعظم نہیں بلکہ “پورے پاکستان “پر جوتا پھینکا ہے اور دنیا کو بتا دیا کہ ” پاکستانی معاشرہ” عدم برداشت کا “داعی” ہے۔اور نعرہ وہ آقا حضور نبی ﷺ کا لگائے جنہوں نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی بددعا تک نہ دی جنہوں نے لہو لہان کر دیا زبان سے دعا ہی نکلی، روزانہ کوڑا پھینکنے والی خاتون کی تیمارداری تک کی ،خدارا نبی ﷺ کے نام پر اس قوم کو بے وقوف بنانا اور مٹھی بھر انتہا پسندوں کو اکثریت پر اپنے خیالات کو مسلط نہ کریں۔
نوازشریف کو ایک لمحے کیلئے ہم ” کالا چور” تسلیم بھی کر لیں مگر کیا سزا یا انکی تذلیل کا حق چند افراد کے پاس رہ گیا ہے کہ وہ فیصلہ کریں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں عدالتوں کو تالے لگا کر من پسند انصاف کی جگہ جگہ عدالتیں لگا لینی چاہئیں جہاں مخالف کو پھانسی اور حریف کو تذلیل کی سزا دی جا سکے۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کیلئے قومی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے نا کہ اس فعل پر خوشی کے شادیانے بجا کر پس پردہ قہقے لگائے جائیں۔ عدم برداشت ، گھسیٹو، جلاﺅ ، گھیراﺅ جیسے بیانہ کو کچھ “قومی رہنما ” گزشتہ چند سالوں سے جس بے دردی سے اپنی تقریروں میں استعمال کر کے عوام کے ذہنوں کو پرتشدد بنا رہے ہیں انکے لئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جو وہ آج “بو” رہے ہیں کل یہی انہیں بھی “کاٹنا “پڑ سکتا ہے۔ میرا تو یہی سوال ہے کہ اگر یہ پر تشدد چہرے ٹھیک ہیں تو پھر پہاڑوں پر بیٹھے طالبان کس طرح غلط ہو گئے؟ خدارا، اب تو اپنی سوچ کو بدلو۔ کب تک اسی طرح اداروں اور رہنماﺅں کو لڑانے کی سیاست کرتے رہو گے یا کبھی پاکستان کا بھی سوچو گے۔ اگر اب نہیں سوچو گے تو پھر “جنگل کا قانون ” ہی اس معاشرے میں “رائج ہو کر رہے گا۔ معاشرے میں عدم برداشت اور بگاڑ کو ختم کرنے کیلئے اب سب رہنماﺅں کو اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے اور اگر یہ وقت گزر گیا تو پھر “دوبارہ ہاتھ “نہیں آئے گا۔