متحدہ کے گرد بڑھتا شکنجہ عدالتی راستہ اختیار کرے
11 مارچ کو کراچی میں عزیز آباد میں ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر اور ملحقہ علاقوں میں واقع گھروں پر سندھ رینجرز نے چھاپہ مارا ، اس دوران رینجرز نے وہاں سے بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کرنے اور 100 سے زائد افراد کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا۔ رینجرز نے وہاں سے پکڑے گئے افراد کو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں پیش کرکے بیشتر ملزموں کا ریمانڈ حاصل کرلیا۔ عدالت نے ان افراد کو 90 روزہ ریمانڈ پر رینجرز کے حوالے کردیا۔ ہفتہ کے روز کچھ ملزموں کو عدالت نے پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا جس پر ان افراد کو پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔
سندھ رینجرز نے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ملزم عمیر صدیقی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے 90 دن کا ریمانڈ لیا۔ ہفتے کو رینجرز کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ملزم عمیر صدیقی نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ اس نے کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق انچارج حماد صدیقی کے حکم پر ٹارگٹ قاتلوں کی 23 رکنی کمیٹی تشکیل دی جس نے مجموعی طور پر 120 مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس کے علاوہ اس نے اپنی اس تنظیم کے ذریعے اپنی پارٹی کے کئی کارکنوں اور عامر خان کے بھتیجے سمیت متعدد افراد کو قتل کیا۔ ملزم نے تفتیش میں یہ بھی بتایا کہ 90 عزیز آباد کے گردونواح میں 250 سے زیادہ ٹارگٹ کلرز روپوش ہیں۔ رینجرز ترجمان نے بتایا کہ اسے متحدہ کے مخالفین کو قتل کرنے کا ٹارگٹ ملا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے ٹارگٹ کلرز کی ایک ٹیم تشکیل دی جس میں 23 افراد شامل تھے۔ ان کا تعلق ایم کیو ایم کے مختلف یونٹوں سے تھا۔ ملزم نے بتایا کہ قتل کے احکامات کے ٹی سی کے سابق انچارج حماد صدیقی سے ملتے تھے۔ ان ٹارگٹ کلرز نے رینجرز کے لانس نائیک شوکت کا بھی قتل کیا اور سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کے گارڈ شاہد حسین اور عامر خان کے بھتیجے صبیح اللہ کے قتل میں بھی ملوث ہے۔ ملزم عمیر نے بتایا کہ 2008ءمیں متحدہ کے ڈپٹی کنوینر انیس قائم خانی نے لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ میں اضافے کے لئے خورشید میموریل ہال میں میٹنگ کی جس میں تمام سیکٹر انچارجز شامل تھے اور ٹارگٹ کلنگ تیز کرنے کی ہدایات دیں۔ عمیر صدیقی نے انکشاف کیا کہ اس نے متحدہ کے عسکری ونگ کے لئے کوئٹہ کے اسلحہ ڈپو کے ذریعے اسلحہ خریدا۔ صرف ایک واقعہ میں 40 کلاشنکوفیں، 8 ایل ایم جی، ایک راکٹ لانچر، 6 عدد جی تھری 9 اور دیگر اسلحہ بھی خریدا۔ یہ اسلحہ ایمبولینسوں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا۔ سانحہ بلدیہ کے متعلق ملزم نے بتایا کہ فیکٹری میں آگ بلدیہ کے سیکٹر انچارج رحمان بھولا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر لگائی۔ اس نے بتایا کہ 300 کے قریب ٹارگٹ کلرز 90 عزیز آباد کے اردگرد کے علاقوں میں مفرور ہیں۔ عمیر صدیقی نے کہا کہ 2013ءکے الیکشن میں انہوں نے پریزائیڈنگ افسروں کے ذریعے دھاندلی بھی کی تھی۔ ملزم کے ریمانڈ کے موقع پر اس کے وکیلوں کا کہنا تھا کہ اسے 15 فروری کو ہی پکڑ لیا گیا تھا تاہم عدالت نے رینجرز کی طرف سے اسے 11 مارچ کو گرفتار کرنے کی استدعا منظور کرتے ہوئے اس کا ریمانڈ دے دیا۔
عمیر صدیقی کے اعترافی بیان پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمیر صدیقی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ الطاف حسین کا کہنا تھا کہ نوازشریف فوج سے معافی مانگ کر آئے ہیں وہ فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتے، نہ ہی ان سے امید ہے کہ وہ آپریشن رکوائیں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ عمیر صدیقی کا مقدمہ کھلی عدالت میں چلایا جائے۔ پتہ چل جائے گا عمیر کیا کہتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں مگر نشانہ صرف ایم کیو ایم کو بنایا جا رہا ہے۔ عمیر صدیقی اگر مجرم ہے تو اس کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ الطاف حسین نے کہا کہ انہوں نے کراچی میں فوج بلانے کا مطالبہ اس لئے کیا تھا تاکہ طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائی ہو۔ الطاف حسین نے اپنے ایک خطاب میں رینجرز اور فوج کے بارے میں انتہائی سخت زبان استعمال کی۔ انہوں نے کہا کہ تمام مفرور نائن زیرو سے نہیں بلکہ عزیز آباد کے اطراف سے پکڑے گئے۔ نائن زیرو کوئی تھانہ نہیں کہ اردگرد رہنے والوں کی معلومات اکٹھی کرتا پھرے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی تیسری بڑی جماعت کو بدنام کرنے کی سازش ہورہی ہے۔
ایم کیوایم کے قائد کی طرف سے فوج کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے اور الزام تراشی پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ فوج اور رینجرز کے خلاف ایم کیو ایم کی ہرزہ سرائی ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے سوال کیا کہ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں اپنی ہی فوج کے خلاف اس قسم کی زبان کے استعمال کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے خود کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی فوج ہے جس کے ساتھ 9 سال تک ایم کیو ایم برسراقتدار رہی۔ یہ کیسی منطق ہے کہ ایک دن فوج کے حق میں اور دوسرے دن فوج کے خلاف قابل مذمت زبان استعمال کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم کا مو¿قف صحیح ہے تو وہ آزاد عدلیہ سے رجوع کرے لیکن اس قسم کے ردعمل سے قانون کا مذاق نہ اڑائے۔دوسری طرف مجھے اس بات کی حیرانگی ہے کہ نہ تو میاں نوازشریف اور نہ ہی پیپلزپارٹی کی طرف سے کوئی ردعمل آیا ہے جو کہ پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہوتا اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ حکومت اپنا واضح مو¿قف بیان کرے۔
کراچی میں گزشتہ کئی دہائیوں سے قتل و غارت کا جو بازار گرم ہے اس کو روکنے میں ماضی کی ہر حکومت ناکام رہی۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد کراچی میں آپریشن کا آغاز کیا۔ اسی دوران ملک میں مذہبی دہشت گردی بھی ہوتی رہی۔ طالبان نے بھی دہشت گرد کارروائیاں جاری رکھیں۔ موجودہ حکومت نے طالبان سے مذاکرات کرنے کی کوشش بھی کی مگر اس کی ناکامی کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کردیا گیا۔ سانحہ پشاور کے بعد پورے ملک میں دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان تیار کرنے کے بعد سکیورٹی اداروں نے کارروائیاں شروع کیں۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے اس ضمن میں تمام امور پر اتفاق کیا۔ کراچی میں رینجرز نے متعدد طالبان دہشت گرد ہلاک کئے جبکہ کئی حراست میں بھی لئے۔ 11 مارچ کو عزیز آباد میں چھاپہ مارا گیا جس میں ممنوعہ اسلحہ اور کئی جرائم پیشہ اور سزا یافتہ مجرم پکڑے گئے۔ اس چھاپے کے بعد ایم کیو ایم کا مو¿قف ہے کہ فوج اور رینجرز درست ملزموں کے خلاف کارروائی کی بجائے ان کی پارٹی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔الطاف حسین نے ہفتہ کے روز رینجرز اور فوج کے بارے میں جو زبان استعمال کی اس کا وفاقی وزیر داخلہ کو جواب دینا پڑا۔ ایم کیو ایم کو ان تمام افراد سے لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہیے جن پر جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم ان افراد کو بے گناہ سمجھتی ہے تو عدالتوں سے رجوع کرے اور ان کو آزاد عدلیہ سے کلیئر کرائے۔ ایک محب وطن جماعت کو اس ملک کی فوج جو پورے ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے جنگ لڑ رہی ہے پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے۔
ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ تمام جماعتیں اپنے عسکری ونگ ختم کردیں۔ ایسے افراد جو کسی قسم کے جرائم میں ملوث رہے ہیں ان کو پارٹیوں سے باہر نکال دیں اور تمام سیاسی جماعتیں صاف ستھرے افراد کو ساتھ لے کر چلیں اور سیاست کریں تاکہ ہمارا ملک دہشت گردی سے نجات حاصل کرکے اپنے اصل راستے پر چل سکے۔