انتخاب کالعدم قرار این اے ایک سو پچس
بطور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی پارٹی کی طرف سے عام انتخابات2013ءمیں بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات اور خصوصاً قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں ووٹروں کے انگوٹھوں کی تصدیق کے مطالبے کو الیکشن ٹربیونل کے حالیہ فیصلے سے بڑی تقویت ملے گی اور تحریک انصاف اب باقی تین حلقوں کے حوالے سے بھی بڑی پُر امید ہوگی جن کے فیصلے آج کل میں ہی متوقع ہیں۔ ان فیصلوں سے جوڈیشل کمیشن پر بھی دباﺅ بڑھے گا اور ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں ایک بار پھر تیزی آئے گی ۔ گزشتہ روز الیکشن ٹربیونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے125اور پی پی 155میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا ۔جسے بعد ازاں سپریم کورت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ الیکشن ٹربیونل کے جج جسٹس جاوید رشید محبوبی نے اپنے مختصر فیصلے میں تحریک انصاف کے امیدوار حامد خان کی انتخابی عذرداری کو منظور کرتے ہوئے این اے125کے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دے دیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کیا کہ وہ نئے انتخابات کرانے کے لیے شیڈول کا اعلان کرے ۔ مختصر فیصلے میں یہ لکھا گیا ہے کہ یہ درست ہے کہ انتخابات میں منظم دھاندلی ثابت نہیں ہوسکی مگر سات پولنگ سٹیشنوں میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ۔ الیکشن کمیشن کے سٹاف نے درست طریقے سے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں ۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کے حامد خان نے الیکشن ٹربیونل کے روبرو انتخابی عذر داری دائر کی تھی جس میں خواجہ سعد رفیق پر دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے تھے ۔ الیکشن ٹربیونل کے جج نے کئی ماہ تک اس عذرداری کی سماعت کی ۔ خواجہ سعد رفیق اور حامد خان نے ٹربیونل کے سامنے بیانات ریکارڈ کرائے ۔ حامد خان کے وکلاءنشانات انگوٹھا کی تصدیق کرانے پر زور دیتے رہے جبکہ خواجہ سعد رفیق کے وکلاءکا مو¿قف تھا کہ انتخابی عملہ کی بدانتظامی کو دھاندلی قرار نہیں دیا جاسکتا الیکشن ٹربیونل نے کیس کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جسے گزشتہ دنوں سنایا گیا۔
این اے 125 میں نئے انتخابات کرانے سے متعلق الیکشن ٹربیونل کا مختصر فیصلہ ملک میں کسی سیاسی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے یا نہیں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس فیصلے سے تحریک انصاف حکومت پر مزید دباﺅ بڑھائے گی اور یہ تاثر دے گی کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے قبل ہی دیگر چار حلقوںمیں سے ایک لودھراں اور دوسرا لاہور این اے122کے حلقے کا بھی فیصلہ ملک میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کردے گا اور اگر جوڈیشل کمیشن سے بھی اس طرح کا ہی کوئی فیصلہ آیا تو پھروزیراعظم کو خود اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے ہوں گے ۔ جوڈیشل کمیشن میں تحریک انصاف کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی نے67حلقوں میں دھاندلی کے ثبوت جمع کرا دیئے ہیںاور استدعا کی ہے کہ ان ثبوت کی تحقیقات کرانے سے دھاندلی ثابت ہو جائے گی۔ جوڈیشل کمیشن نے جن گواہوں کو طلب کر رکھا ہے ان پر بھی آج بحث ہو گی تحریک انصاف کی لیگل ٹیم سوالات کرے گی ۔ این اے125 الیکشن ٹربیونل کے فیصلے سے تحریک انصاف کے126 دنوں کے تھکا دینے والے دھرنے سے فوری نتائج نہ نکلنے پر مایوس رہنما اور کارکنوںمیں ایک بار پھر جوش پیدا ہوگا اور تحریک انصاف جشن منانے کے نام پر پورے ملک میںکارکنوں کو ایک بار پھر متحرک کرنے کا کام کرے گی اور ان متحرک کارکنوں سے جہاں30مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بہتر نتائج حاصل کرے گی وہیں پنجاب خصوصاً لاہور میں مسلم لیگ ن کو ٹف ٹائم دے گی مسلم لیگ ن کے پاس اب دو آپشن ہیں، ایک وہ الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت سے رجوع کرے یا پھر اپنی طاقت ثابت کرنے کے لیے عوامی عدالت میں جانا پسند کرے ۔ ان دونوں آپشنز پر عمل ٹربیونل کے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے ۔
الیکشن ٹربیونل کے مختصر فیصلے میں یہ بات تو کلیئر ہو گئی کہ انتخابات میں منظم دھاندلی ثابت نہیں ہوسکی البتہ انتخابی بے ضابطگیاں اور الیکشن کمیشن کے عملے کی کرپشن وناکامی ثابت ہوئی مگر کامیاب امیدوار خواجہ سعد رفیق پر لگنے والے الزامات بھی ثابت نہیں ہوئے ۔ اس لیے اعلیٰ عدالتوں سے کامیاب امیدوار کو ریلیف بھی مل سکتا ہے ۔ لیکن عوامی جماعت کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ اعلیٰ عدالتوں کا سہارا لینے کی بجائے عوامی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کو ترجیح دے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے ۔ کراچی کے حلقہ این اے246میں تجربہ کیاجاسکتا ہے ، متحدہ قومی موومنٹ سے لاکھ اختلافات رکھنے والے لوگ بھی کراچی میں ان کی بالادستی کے قائل ہیں اور اگر لاہور واقعی مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے تو انہیںاپنے مضبوط ووٹروں پر مکمل اعتماد ہے تو پھر عوامی عدالت کا ہی بہتر آپشن بہترین آپشن ہے ۔ بہر حال میں یہ کہا ضروری سمجھتا ہوں کہ ملک کو مستقل بنیادوں پر چلنے دیا جائے اور الیکشن الیکشن کھیلنا اور دھاندلی کا رونا بند کر دینا چاہئے اس وقت پاکستان میں بہت سے پراجیکٹ بن رہے ہیں خاص طور پر بجلی بحران پر کابو پانا بہت ضروری ہے اور جس پر حکومت پاکستان اور خصوصی طور پر پنجاب حکومت بہت اچھی جا رہی ہے خدا کے لیے عوام کا سوچیں پاکستان کا سوچیں اور عمران خان صاحب ہمارے غریب عوام اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ہر دو سال کے بعد ملک میں الیکشن کرائے جاتے رہیں۔