Tayyab Mumtaz

ہر سال بارشیں، سیلاب، سد باب کون کریگا؟

اس برس جولائی کے آغاز سے ہی پری مون سون بارشوں کا آغاز ہوا۔ راولپنڈی میں ان بارشوں کی وجہ سے نالہ لئی میں پانی کا بہاؤ اونچے درجے تک پہنچ گیا جس کی وجہ سے نالہ لئی کا سیلابی پانی کئی علاقوں میں گھروں اور دکانوں کے اندر داخل ہو گیا جس سے مالی نقصان کے علاوہ جانی نقصان بھی ہوا اور لوگوں کو سخت پریشانی اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ دس دن قبل سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے اضلاع میں بھارت سے آنے والے دو نالوں میں برساتی پانی نے وسیع علاقے کو متاثر کیا۔ اس سیلابی پانی سے کھڑی فصلیں زیر آب آ گئیں، کئی دیہات پانی میں گھر گئے یا زیر آب آ گئے یہاں بھی متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ محکمہ موسمیات نے عید سے پہلے ہی اطلاع دے دی تھی کہ عید اور اس کے بعد کے 3 دن اور ایک روز کے وقفے کے بعد پھر مسلسل 3 دن پورے پاکستان میں تیز اور طوفانی بارشوں کا امکان ہے۔ عید کے روز اس سے اگلے دن اور پیر کو تقریباً پورے پاکستان میں بارشیں ہوئیں۔ ضلع چترال میں تین دن سے مسلسل بارش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے 3 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔33سے زائد پل بہہ گئے ہیں۔اس علاقے میں سیلاب آگیا ہے۔ سیلابی پانی کئی رابطہ پلوں کو بہا کر لے گیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے چترال میں درجنوں، مکانات مارکیٹیں اور دکانیں تباہ ہو گئی ہیں۔ کئی علاقوں میں خوراک کی قلت کی بھی اطلاعات ہیں۔ پشاور ، چترال شاہراہ بھی تین دن سے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے۔ مون سون کی بارشوں کی وجہ سے مختلف دریاؤں میں طغیانی آ گئی ہے۔ سندھ میں سیلابی ریلے کی وجہ سے گھوٹکی کے پچاس دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ تونسہ کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔اس وقت دریائے سندھ، جہلم اور چناب میں پانی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس حوالے سے دریاؤں کے قریبی علاقوں کے لوگوں میں سیلاب کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر برس جولائی سے ستمبر کے درمیان بارشوں اور سیلاب سے نقصانات ہوتے ہیں۔ حکومت کو اس ضمن میں متعلقہ محکموں کو تمام اقدامات کرنے کی ہدایت کرنی چاہیے۔ سیلاب سے بچاؤ کے لیے محکمہ فلڈ وارننگ اور محکمہ موسمیات کو اس حوالے سے ہر متعلقہ علاقے کی انتظامیہ کو ممکنہ سیلاب اور بارشوں کے بارے میں بروقت آگاہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح امدادی محکموں کو شہریوں کو ہر طرح کی صورت حال میں مدد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ شہریوں کو ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے پہلے سے ہدایات اور پلان سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔ شہریوں کو گھروں سے نکلنے کی صورت میں ان کے قیام کے لیے جگہوں کا پہلے سے اعلان ہونا چاہیے جہاں ان کی رہائش کے لیے تمام انتظامات مکمل ہوں۔ اسی طرح وہاں ان کی خوراک وغیرہ کا انتظام ہونا چاہیے۔ شہریوں میں بارش کی صورت میں نکاسء آب کا فوری انتظام کا بندوبست ہونا چاہیے۔ تمام محکموں کا آپس میں رابطہ ہو اور ایک دوسرے سے مکمل تال میل ہو تا کہ ہنگامی صورت حال میں نقصانات کو کم سے کم رکھا جا سکے۔ حکومت کو اس حوالے سے فوری طور پر تمام محکموں کو الرٹ کرنا چاہیے اور تمام محکموں کے افسر و اہلکار کسی بھی مشکل صورت حال میں مجاہدوں کی طرح کام کریں تا کہ اس صورت سے خوش اسلوبی سے نمٹا جا سکے۔
یہاں میں ایک بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سارا سال سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگی رہتی ہیں اگر یہی اپنی تمام توجہ سیلاب سے بچنے اور اس کے سدباب کی طرف لگائی جائے تو شاید اتنے زیادہ نقصان سے بچا جا سکے اور دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جتنا پانی ان دنوں میں ضائع ہو جاتا ہے اگر ہمارے پاس چھوٹے چھوٹے ڈیم موجود ہوں تو یہ پانی کام آ سکتا ہے بلکہ اتنے بڑے جانی اور مالی نقصانات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button