ایک استاد کا قتل ،ظلم کی انتہا ،انصاف کب ملے گا

فرمان نبی ﷺ ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔اور دوسری طرف دیکھا جائے تو ایک استاد پورے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ کسی بھی قوم کا حال اور مستقبل اسی استاد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ہفتہ کی شام میری بیٹی نے فون کرکے بتایا کہ اس کی دوست عائشہ کے والد کو قتل کر دیا گیا ۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ؟ اس نے روتے ہوئے بتایا کہ میرے ایک دوست جو کہ گورنمنٹ سکول میں سائنس ٹیچر تھے کا قتل ہو گیا ہے۔ مجھے اس انہونی خبر نے ہلا کررکھ دیا۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میں عبدالوحید صاحب کو پچھلے دس سال سے جانتا تھا جب وہ ملت ہائی سکول میں پڑھایا کرتے تھے۔نہایت وضع دار ،انتہائی شفیق،پیار کرنے والے، بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ ان کا خاصا تھا اور سب سے بڑی بات بے لوث،اور اس قوم کا درد رکھنے والے انسان تھے۔وہ میرے ساتھ سیاسی اور سوشل کاموں میں بھی بہت معاون ثابت ہوتے تھے۔ان سے جب بھی ملاقات ہوئی انہیں پاکستان اور خاص طور پر اس قوم کی آنے والی نسلوں کیلئے فکر مند پایا۔ان سے ایک اور تعلق اس وقت پیدا ہوا جب ان کی بیٹی عائشہ اور میری بیٹی تانیہ ایک ہی سکول اور ایک ہی کلاس میں پڑھنے لگیں اور ان دونوں میں مقابلے کا ایک ایسا رجحان پیدا ہوا جو کسی بھی طالب علم کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے کبھی تانیہ کے نمبر زیادہ تو کبھی عائشہ کے۔ اسی مقابلے کی فضا میں دونوں نے نمایاں نمبروں کیساتھ اے پلس گریڈ میں میڑک کا امتحان پاس کیا اور پھر کیا تھا ایک دوڑ تھی کہ اچھے سے اچھے کالج میں داخلہ لیں۔وحید صاحب مرحوم نے اپنی صلاحیتوں اور تجربے سے بہترین مشوروں کے ساتھ ساتھ میری غیر موجودگی میں میری بیٹی کے داخلے میں مکمل معاونت بھی کی۔
مرحوم کی تین ہونہار بیٹیاںہیں اور ایک بیٹا مگر المیہ یہ ہے کہ بیٹا جس کا نام ابوبکر ہے ذہنی معذور ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عبد الوحید جیسے انسان کو کسی نے کیوں قتل کر دیا جس نے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔ایسا شفیق استاد جو بچوں کو پڑھانے کے معاملے میں ایک ہی مفروضے پر کام کرتا تھا”مار نہیں پیار“ سے پڑھانا ان کا شیوہ تھا۔ ان کے بھائی اور بیٹی سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے گاو¿ں کی زمین بیچ کر کچھ بھینسیں خریدیں تھی اور اب لاہور جیسے شہر میں ان کو رکھنے کا مشکل مرحلہ تھا اس سلسلے میں انہوں نے ایک قطعہ اراضی کرایے پر حاصل کی اور وہاں پر اپنا کام شروع کر دیا۔معاملہ کچھ یوں ہوا کہ ان بھینسوں کی دیکھ بھال کیلئے انہوں نے جو ملازمین رکھے تھے ان کا ذریعہ معاش بھتہ خوری اور بدمعاشی تھا۔ ان ملازمین نے راتوں رات اپنے مسلم لیگی غنڈوں کیساتھ ملکر اسلحے کے زور پر تمام مال مویشی چوری کر لیے اور جب وحید صاحب کو اس بات کا صبح کو علم ہوا تو انہوں نے اس سلسلے میں پولیس میں رپورٹ کرائی اور کیس دائر کردیا ۔ ویسے بھی ذاتی طور پر ان لوگوں کو ملے کہ بھائی میں غریب آدمی ہوں اور میں نے بڑی مشکل سے یہ کام شروع کیا ہے ۔آپ لوگ میرا مال مویشی واپس کردیں میں کہیں اور جگہ انکو شفٹ کر لوں گا۔مگر ان کو تو مال مفت دل بے رحم کی طرح مفت میں مال مل چکا تھا اور اس پر سونے پر سہاگہ کے مترادف مدعی بھی ایک شریف انسان تھا جو کسی سے لڑنے جھگڑنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا۔انہوں نے الٹا ان کو دھمکانا شروع کردیا اور جب وحید صاحب نے کیس واپس لینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اپنے سیاسی سرپرستوں کے ذریعے دھمکانا شروع کردیا ۔اس پر وحید صاحب نے قتل سے چند دن قبل تھانہ مناواں میں ایک درخواست جمع کروائی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اس سلسلے میں مجھے تحفظ فراہم کیا جائے۔مگر کون سنتا ہے کسی شریف اور غریب آدمی کی ۔ اس ملک خداداد میں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس “ کے مصداق پولیس بھی اسی کے ساتھ چلتی ہے جہاں مفادات ہوں۔جس کی بھاری سفارش ہو،جس کی کوئی سیاسی وابستگی ہو۔شریف آدمی تو تھانے کی دیوار کے پاس سے بھی نہیں گزرسکتا۔
یہاں مجھے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کیا اس وقت کیلئے قائد اعظم ؒنے یہ ملک حاصل کیا تھا؟ کیا اس دن کیلئے علامہ اقبال ؒ نے اس ملک کا خواب دیکھا تھا؟ آج یقیناً انکی روحیں بھی تڑپ رہی ہوں گی۔کہ ہم ایسا پاکستان چاہتے تھے؟ نہیں نہیں کبھی بھی نہیں…. ان کے خواب تو ایسا تھا کہ ایسا پاکستان جہاں سب کی عزت محفوظ،جان محفوظ ہو،مال محفوظ رہے۔ایسا پاکستان تو نہیں چاہتے تھے جس میں فقیروں کی کمائی لٹ جائے اور کوئی انصاف فراہم نہ کرے۔
میری ارباب اختیار اور خاص طور پر خادم اعلیٰ پنجاب سے اپیل ہے کہ اپنی آستین میں چھپے سانپوں کی خبر لیں ۔ اپنی پارٹی کی صفوں میں موجود غنڈوں اور سفاکوں کو غریب عوام کی عزتوں اور جانوں سے کھیلنے سے روکیں۔ میں ان کو یہ بھی یاد کروانا چاہتا ہوں کہ وہ اس قتل کیس کو بھی دہشتگردی کی عدالت میں چلائیں جیسے وہ مخالف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ افراد کیخلاف چلا رہے ہیں تاکہ عبدالوحید مرحوم کے لواحقین کو بھی انصاف مل سکے ۔ایسے غنڈوں اور سفاکوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے تا کہ آئندہ کسی کا مال ہتھیانے اور کسی کا خون ناحق بہانے سے پہلے سو بار سوچے۔ ۔۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔