Tayyab Mumtaz

بلدیاتی نتائج خطرے کی گھنٹی

اس میں شک نہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج حیران کن ہیں، پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے امیدواربھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے، پنجاب میںدوسرا نمبر آزاد امیدواروں کا رہا، پاکستان تحریک انصاف تیسرے اور پیپلز پارٹی چوتھے نمبر پر ٹھہری، لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی بلا شرکت غیرے ان آٹھ اضلاع میں نمبر ون رہی جہاں بلدیاتی نمائندے منتخب کیے گئے۔ سندھ کے شہری اضلاع میں انتخابات آئندہ مرحلے میں منعقد ہوں گے۔
مناسب ہو گا کہ اتوار کی شام تک سامنے آنے والے غیر حتمی غیر سرکاری بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا ایک جائزہ پیش کیا جائے جس سے کہاں کیا ہوا؟ دیکھنے میں مدد ملے گی
پنجاب میں ن لیگ پہلے نمبر پر ،آزاد امیدواروں کا دوسرا نمبر ،تحریک انصاف تیسرے نمبر پر ہے،سندھ میں پیپلز پارٹی کو سب پر برتری حاصل ہے، فنکشنل لیگ کا دوسرا نمبر ہے۔
پنجاب کے اضلاع جن میں پولنگ ہوئی۔۔۔
لاہور، فیصل آباد، گجرات، چکوال، بھکر، ننکانہ صاحب، قصور، پاکپتن، اوکاڑہ، لودھراں، وہاڑی اور بہاول نگر شامل ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے پنجاب میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد دوکروڑ 85 ہزار 329 ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پنجاب کی 2696 نشستوں پر پولنگ ہوئی
پنجاب کی2ہزار696نشستوں میں سے2436نشستوں کے غیرسرکاری نتائج
پنجاب میں مسلم لیگ(ن)1123نشستیں حاصل کرکے سب سے آگے
پنجاب میں964آزادامیدوارکامیاب
پنجاب میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق 44، 44نشستوں پرکامیاب
پنجاب میں جماعت اسلامی اور پاکستان عوامی تحریک کی 2،2 نشستیں ہیں
پنجاب میں تحریک انصاف کی259نشستیں
پنجاب میں 955نشستوں پر آزاد امیدوارکامیاب
سندھ کے اضلاع جن میں پولنگ ہوئی۔۔۔
سندھ کے آٹھ اضلاع سکھر، خیرپور، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد، کشمور اور قمبر شہدادکوٹ میں ووٹ ڈالے گئے
سندھ میں پہلے مرحلے میں 1072 نشستوں پر پولنگ ہوئی
سندھ کی ایک ہزار 72 نشستوں میں سے879نشستوں کے غیرسرکاری نتائج
سندھ میں پیپلز پارٹی 632نشستیں حاصل کرکے سب سے آگے
سندھ میں آزاد امیدواروں نے 150 نشستیں حاصل کیں
سندھ میں مسلم لیگ فنکشنل کی 66 ،ایم کیو ایم کی 4 نشستیں
سندھ میں پاکستان تحریک انصاف نے 5 اور ن لیگ نے 3 نشستیں لیں
دیگر سیاسی جماعتوں کے بھی 20 سے زائد امیدوار الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔
بلدیاتی انتخابات کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ سندھ شہری ہو یا سندھ دیہی، ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے ان اداروں کے لیے جو ملکی صورتحال خاص طور پر امن و امان کے حوالے سر گرم ہیں، عام تاثر یہی تھا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے بیرون ملک چلے جانے، سر عام کرپشن کی ہوشربا داستانوں اور قبضہ مافیا کی سرپرستی جیسے معاملات نے پیپلز پارٹی اور ووٹر کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیا ہے لیکن بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے تمام تر ایسے تجزیوں اور جائزوں کو مسترد کر دیا ہے، ابھی گذشتہ دنوں سے ایک ماہ سے کم عرصہ قبل منعقد ہونے والے لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ 122کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیداور کی ضمانت ضبط ہو ئی تولکھا گیا تھا کہ بھٹو زندہ ہے لیکن پیپلز پارٹی کی سیاسی موت واقع ہو چکی ہے لیکن یہ بات پنجاب کی حد تک تو بلدیاتی انتخابات نے ثابت کی ہے لیکن سندھ نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دے کر ثابت کر دیا ہے کہ پارٹی کی جڑیں سندھ میں باقی ہیں بلکہ باقی نہیں بہت گہری ہیں، اس میں شک نہیں کہ گزشتہ عام انتخابات میں فنکشل مسلم لیگ کے ساتھ معاہدہ طے کر کے اگر ن لیگ پیچھے نہ ہٹتی تو شاید نتائج کسی حد تک مختلف ہو سکتے تھے، لیکن ایک طرف ن لیگ پیچھے ہٹی اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ غیر تحریری معاہدے کے تحت راستہ صاف کر دیا، لیکن سندھ میں رینجرز کی طرف سے جاری دہشت گردی کے خلاف حالیہ مہم کے دوران پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کی سیکیورٹی اداروں کے ساتھ بیان بازی کی شکل میں ہونے والی جھڑپ کے بعد ملک سے روانگی اور بعد ازاں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری نے صورتحال گھمبیر بنا دی، لیکن بظاہر پسپائی اختیار کرنے اور دفاعی پوزیشن پر چلی جانے والی پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میںحیران کن نتائج دکھائے ہیں جو ایک بڑا چیلنج ہیں، خاص طور پر ان قوتوں کے لیے جو مستقبل میں سندھ کو خرابیوں سے پاک صوبہ بنانے کی حکمت عملی پر پوری سنجیدگی سے عمل پیرا ہیں۔
دوسری جانب ایم کیو ایم نے جو کئی عشروں سے کراچی اور حیدرآباد کی بلاشرکت غیرے نمائندگی کرتی رہی ہے، آفتاب شیخ سے لے کر مصطفی کمال تک کراچی اور حیدرآبادمیںانہوں نے حکمرانی کی، لیکن بدلے ہوئے حالات میں ایم کیو ایم جس نے قومی اسمبلی اور سینٹ سے استعفےٰ پیش کر دئیے تھے اب واپس آ رہی ہے، ایم کیو ایم کراچی میں ہی نہیں لندن میں بھی انڈر ٹرائل ہے، کئی سوالوں کے شافی جواب اس کے پاس نہیں ہیں، ایسے حالات میں اسے بلدیاتی منظر سے باہر رکھنا ممکن نہیں بلکہ کراچی کے حالات سے واقف ماہرین کی رائے میں ایم کیو ایم نے نہ صرف کراچی، حید آباد، سکھر، میر پور خاص اور نواب شاہ میں ثابت کیا ہے کہ اس کا ووٹ بنک نہ صرف قائم ہے بلکہ بعض مقامات پر اس میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے،ایم کیو ایم نے کراچی اور حید ر آباد میں ایک سو سے زائد نشستیں بلا مقابلہ جیت کر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، ایک بار پھر یہ چیلنج ہے ان اداروں کے لیے جو چاہتے ہیں کہ انرجی کاریڈور جیسے قومی اہمیت کے منصوبوں کو کسی بھی قسم کے امن و امان کے خطروں سے پاک کر دیا جائے، وفاقی دارلحکومت میں آج سینٹ کا اجلاس منعقد ہونے جا رہا ہے، جس میںایم کیو ایم استعفے واپس لے لے گی، قومی دھارے میں ایم کیو ایم کی واپسی خوش آیند بھی ہے ، لیکن ان کا ماضی سے ناطہ کب اور کیسے ٹوٹے گا؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button