ابھی توکہانی شروع ہوئی ہے

پی ٹی آئی کے ستارے شاید گردش میں ہیں، ایک کے بعد ایک تسلسل کےساتھ بُری خبریں آرہی ہیں۔ پہلے حلقہ این اے122 میں شکست کا دھچکا لگا۔ پھر ریحام اور عمران خان کی علیحدگی اور اس سے اگلے روز بلدیاتی الیکشن میں ناقابل یقین شکست، یہ سب ایک کے بعد ایک ایسے صدمے ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی پر سکتے کی سی کیفیت طاری کر دی ہے۔ مکمل خاموشی اور سکوت ہے۔ شور ہے تو میڈیا کا ہے۔ ہر ٹی وی چینل ایک دوسرے سے بڑھ کر دور کی کوڑی لے کر آرہا ہے۔ اخبارات نت نئی کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے مخالفین اور حمایتیوں کی طرف سے تبصرے ہو رہے ہیں۔
جب طلاق کی خبر سامنے آئی تو عمران خان کی طرف سے درخواست کی گئی کہ یہ ان کا نجی اور گھریلو معاملہ ہے اس پر تبصرہ نہ کیا جائے مگر نجی اور گھریلو معاملہ کیسے رہ سکتا تھا، جب عمران خان نے شادی کی خبر خود بھرے جلسے میں دی ہو، نکاح کے وقت ہونےوالے فوٹو شوٹس خود جاری کیے ہوں۔ ایک مدرسے میں ولیمے کے موقع پر بنائی جانےوالی تصاویر خود جاری کی ہوں۔ عمران خان نا صرف قومی ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں بلکہ مقبول ترین لیڈر بھی ہیں۔ وہ لاکھوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ لوگ ان کی ہر سرگرمی سے با خبر رہنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں طلاق کی خبر تو دھماکہ تھی۔ یہ دھماکہ عمران خان کے پُرستاروں کیلئے دلی صدمہ تھا اور مخالفین کیلئے خوشخبری تھی کچھ لوگوں نے جہاں دکھ اور افسوس کا اظہار کیا وہیں کچھ لوگوںنے مرچ مصالحے لگا کر تبصرے بھی کیے۔
کہا جاتا ہے کہ طلاق تو ایک ماہ پہلے ہی ہو چکی تھی مگر اناﺅنسمنٹ کیلئے مناسب موقع کا انتظار کیا جا رہا تھا، مگر سوشل میڈیا پر خبر افواہوں کی شکل میں چل رہی تھی، کہ ایک ٹی وی چینل نے تو دعوے کےساتھ اس خبر کو بریک بھی کر دیا تھا اس پر اس لیے یقین نہیں کیا جا رہا تھا کہ کہیں سے بھی اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں ہو رہی تھی۔ اس روز تو ساری افواہوں نے دم توڑ دیا جب حلقہ این اے 122 کے انتخابی جلسے میں شرکت کیلئے عمران خان اور ریحام خان ایک ساتھ ڈونگی گراﺅنڈ کی جلسہ گاہ میں آئے۔ ریحام جلسہ ختم ہونے سے پہلے ہی واپس جا چکی تھیں۔ اس پر عام لوگ حیرت زدہ تھے، ایسا کیوں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ریحام خان کا براہ راست علیم خان سے رابطہ تھا۔ اور علیم خان کی درخواست پر ہی ریحام عمران خان کےساتھ لاہور آنے کیلئے تیار ہوئی تھیں۔ علیم خان کی درخواست پر ہی ان کے الیکشن سے پہلے طلاق کی خبر کو اناﺅنس نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اگر یہ خبر اسی وقت بریک ہوتی تو اس الیکشن کا نتیجہ قطعی مختلف نکلتا۔
عمران خان اور ریحام خان کی علیحدگی کی وجوہات کے حوالے سے بھی طرح طرح کی افواہیں سرگرم ہیں۔ پہلی وجہ تو شروع دن یہ بیان کی جا رہی تھی کہ عمران خان کی بہنوں کو یہ شادی پسند نہیں تھی۔ انہوں نے احتجاجاً اس شادی میں شرکت بھی نہیں کی تھی۔ دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ریحام خان پی ٹی آئی کی سیاست میں فعال کردار ادا کرنا چاہتی تھیں، جو پی ٹی آئی کے کچھ حلقوں اور خود عمران خان کیلئے قابل قبول نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے ریحام خان کو سیاسی سرگرمیوں سے منع بھی کر دیا تھا۔ ریحام خان کو سیاست سے ہٹایا گیا تو انہوں نے فلم کا پراجیکٹ شروع کر دیا اور عمران خان کی مرضی کےخلاف کراچی سے پی ٹی آئی کے کسی عہدیدار سے خطیر رقم بھی وصول کر لی۔ اس طرح کی باتوں نے دونوں کی زندگی میں تلخیوں کا زہر بھرنا شروع کر دیا، کہا جاتا ہے کہ اس تلخ ماحول میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک بار ریحام خان کا ہاتھ عمران خان پر اُٹھ گیا۔ اس کے بعد تو بات ختم ہی ہو گئی، بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، بعض حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ریحام خان، عمران خان کو زہر دینا چاہتی تھیں۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے عمران خان کے باورچی کو فارغ کر دیا تھا۔ بعض حساس اداروں کی طرف سے عمران خان کو اس حوالے سے خبردار بھی کیا گیا تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی پارٹی ہے۔ یہ گروہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان اور ریحام کی شادی بھی انہی گروپوں میں سے ایک گروپ کی سازش کا نتیجہ تھی۔ یہی گروپ ریحام خان کو سیاسی طور پر فعال کرنا چاہتا تھا، اس گروپ نے ریحام کو فلم بنانے کیلئے رقم فراہم کی اور یہی گروپ پھر عمران خان کے کان بھی بھرتا رہا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے حوالے سے مائنس عمران فارمولے پر بھی عمل کیا جا رہا تھا۔ اگر عمران خان کسی بیماری یا حادثے کی صورت میں پارٹی قیادت سے ہٹ جاتے ہیں تو پھر پارٹی کی قیادت کون کرےگا اور پارٹی معاملات کیسے چلائے جائیں گے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ علیحدگی کی خبر کو بلدیاتی الیکشن سے ایک روز قبل کیوں اناﺅنس کیا گیا۔ سیاسی حلقے اس سارے معاملے کو اس طرح سے بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان معاملات کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے، جسے فائدہ پہنچ رہا ہے کہیں سازش کے پیچھے اسی کا ہاتھ تو نہیں ہے۔ پھر علیحدگی کے اعلان کے بعد ریحام خان اور عمران خان کی خاموشی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہانی ختم ہو گئی ہے، ریحام خان خاموشی سے تمام صورتحال کا جائزہ لے رہی ہیں۔ بہت سے سیاسی حلقے ان سے رابطے کر رہے ہیں۔ مشاورت کا سلسلہ چل رہا ہے، اور ریحام خان کا رد عمل سامنے آئے گا۔ وہ اپنے اوپر لگنے والے ہر الزام کا جواب دینگی اور ہو سکتا ہے وہ نئے انکشافات بھی کریں جو ایک سیاسی زلزلہ ثابت ہو۔ ایسے میں سوئے مخالفین بھی جاگ سکتے ہیں۔ سیتا وائٹ جیسے معاملات پھر اُچھالے جا سکتے ہیں۔ جسٹس (ر) افتخارمحمد چودھری والے کیسز پھر زندہ ہو سکتے ہیں۔ نئی سیاسی ہنگامہ آرائی برپا ہو سکتی ہے، اسی لیے ہم نے کہا کہ کہانی ختم نہیں ہوئی۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے، سیاسی حوالے سے یہ عمران خان کیلئے مشکل ترین وقت ہے۔
مجیب لودھی صاحب کو صدمہ
پیر کے روز روٹین میں دفتر آیا تو ایک میسج پڑھا جس سے دل کو ایک دھچکا لگا مگر سوچ نے ساتھ نہیں دیا ای میل لودھی صاحب کی طرف سے تھی کہ ان کی والدہ وفات پا گئی ہیں ان سے فون پر بات ہوئی تو اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ یہ میسج حقیقت پر مبنی ہے ۔میں اور میری پوری ٹیم ان کے غم میں برابر کی شریک ہے اور ہم تمام دعا گو ہیں کہ اﷲ مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے ۔آمین ثم آمین