Tayyab Mumtaz

مودی کا دورہ برطانیہ

بہت عرصہ پہلے دو ممالک ایسے تھے جن کی قسمتیں تاریخ کے ذریعے باہم منسلک تھیں۔ برطانوی راج کے باعث بھارت کو ایک جدید حکومت بننے میں مدد حاصل ہوئی۔
بھارت کی دولت اور فوجی قوت نے برطانیہ کو دنیا کی سپر طاقت بننے میں مدد دی۔ ایک دوسرے کی تعریف کے علاوہ نسل پرستی، ایک ایسے جامع تعلق کی خصوصیات تھیں جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ برطانوی سلطنت کے زوال کے بعد بھی یہ تعلقات جاری رہیں گے۔
لیکن یہ دونوں ممالک اب مزید موجود نہیں۔ آج کا طاقتور برطانیہ، جو جرمنی اور جاپان کے خلاف جنگ کے بعد سامنے آیا، آج کا اعتدال پسند اور پریشان ملک بن چکا ہے جبکہ بھارت میں گاندھی اور نہرو کی اخلاقی اقدار اس ملک میں تحلیل ہو چکی ہیں اور سیاسی تبدیلی کے باعث ایسے اشخاص اور نظریات سامنے آئے جو 1947ءمیں موجود نہیں تھے جب ملک کو آزادی نصیب ہوئی۔
حالات میں تبدیلی کے باعث، دونوں ممالک میں عجیب صورتحال پیدا ہوئی جسے لے کر بھارتی وزیراعظم برطانیہ کے دورے پر روانہ ہوئے۔ اس وقت جبکہ کیمرون اور نریندر مودی ایک دوسرے کےساتھ مبالغہ آمیز چاپلوسی کر رہے ہیں، کہا جا سکتا ہے کہ یہ تعلقات کچھ کم سطح پر ہوتے۔
مودی کا اصرار ہے کہ دونوں اقوام کیلئے یہ بہت بڑا لمحہ ہے جبکہ کیمرون اعلان کر رہے ہیں کہ 2017ءبرطانیہ بھارت کلچر کا سال ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دونوں ممالک کے تعلقات اور دوستی معاشی تعلقات سے ماورا ہے۔ اس تعلق کو کرکٹ، شیکسپیئر، مادام تساﺅ اور کھانوں کی مشترکہ پسند نے مزید تقویت فراہم کی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ قطعی طور پر غلط تو نہیں لیکن گمراہ کن ضرور ہے۔
ظاہری حقیقت یہ ہے کہ اس دورے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ روز مرہ کے سایسی معاملات کے لحاظ سے دونوں ممالک فائدہ اُٹھا سکیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مودی نے عالمی برادری کو بھارت کی مضبوط معیشت کی طرف متوجہ کرنےکی کوششیں شروع کر دیں اور عالمی سرمایہ کاروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی لیکن ان کا واحد مقصد یہ ہے کہ بھارت کے اندر ان کی شخصیت کا کوئی ثانی نہ ہو۔ جسے بیرون ملک مقیم بھارتی، بھارت سے دور ہونے کے باعث ایک خیرہ کن شخصیت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور مودی، اپنے وطن میں ناقدین کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کیونکہ اپنے تئیں وہ بھارت کا وقار بلند کر رہے ہیں۔
بیرون ملک مقیم بھارتی ایک ایسے قائد کو خوش آمدید کہنا چاہتے ہیں جو ان بھارتی اقلیتوں کیلئے اونچی آواز بلند کرے جو اس وقت دنیا کو اپنی صلاحیتوں سے ششدر کر رہی ہیں۔
جن بھارتی اقلیتوں کے کاروباری تعلقات ہیں، وہ اس قسم کے فوائد حاسل کرنا چاہتی ہیں جو بعد ازاں ان کی طرف سے چندہ جمع کرنے اور خود کو منظم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں۔ اس لیے مودی نے اپنے بیرونی دوروں میں بھارتی شہریوں سے کئی عوامی جلسوں کے ذریعے خطاب کیا۔
جو لوگ ان کا خطاب سنتے ہیں، ان کے پاس ووٹ دینے کا حق نہیں لیکن وہ مودی کے قطعی حمایتی ہیں۔ بیرونی دوروں کی کامیابی، اپنے وطن میں مودی کو درپیش مشکلات اور تنازعات کو دھندلا دیتی ہے جس طرح حال ہی میں بہار میں مودی کو شکست ہوئی اور ایک مسلمان کو گوشت کھانے کے جرم میں قتل کرنے کے باعث ان کے نرم رویئے پر ان پر تنقید ہوئی۔
بھارت میں مسلمان اقلیت کےخلاف مودی کا یہ رویہ ہندو قوم پرستی کا رویہ ہے اور اپنی طرف سے گاندھی کا حوالہ دینے کے باوجود مودی کا رویہ، انہیں ابتدائی بھارتی قائدین سے مختلف بنا دیتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ریاست گجرات میں ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ اس ریاست میں ان کا جو بھی کردار تھا، اس سے قطع نظر یہ سب کچھ ان کی ناک کے نیچے ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں انہیں ایک اعتدال پسند کی حیثیت سے مشکل ہی خوش آمدید کہا جائےگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button