Tayyab Mumtaz

راحیل شریف کا دورہ امریکہ

سول ملٹری تعلقات اور آرمی چیف کے دورہ¿ امریکہ کے حوالے سے بعض حلقوں کی طرف سے سامنے آنے والے تبصروں اور اطلاعات پر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے دو ٹوک اور واضح انداز میں کہا ہے کہ آرمی چیف وزیراعظم کی منظوری سے ارمیکہ گئے۔ چودھری نثار نے میڈیا کانفرنس میں کہا کہ ملک میں سول اور ملٹری کی کوئی تقسیم نہیں۔ فوج اور حکومت ایک پیج پر اور باہمی تعلقات بہترین ہیں۔ سول اور فوجی قیادت مشاورت سے سب کچھ کر رہی ہے۔ ہم ایک طرف سیاسی پختگی کی طرف بڑھر ہے ہیں جبکہ دوسری طرف سول ملٹری تعلقات میں ٹھہراﺅ، پختگی اور گہرائی ہے۔ آپس میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھونچال آنےوالا ہے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ آرمی چیف سمیت تمام سروسز چیفس کے دوروں کی باقاعدہ سمری بھیجی جاتی ہے اور غیر ملکی دورہ وزیراعظم کی اجازت سے ہوتا ہے۔ موجودہ آرمی چیف سے قومی معاملات پر مشاورت ہوتی ہے اور دورے مشاورت سے ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق آرمی چیف کا دورہ¿ امریکہ کے حوالے سے کچھ لوگوں نے سول ملٹری ریلیشن کا پوسٹمارٹم کرنا اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ ہمارا مو¿قف اٹل ہے اور قومی مفاد میں ہے۔ وزیراعظم نے دورہ¿ امریکہ سے قبل جہاں وزیراعظم نے اپنے رفقاءسے مشاورت کی تھی آرمی چیف سے بھی مشورہ کیا تھا۔ وزیراعظم نے دورہ¿ امریکہ میں قومی مفاد پر کوئی جھول نہیں دکھائی۔ آرمی چیف وزیراعظم سے مشاورت کر کے امریکہ گئے، کبھی تلخی نہیں ہوئی۔ دشمن پاکستان جمہوریت کے استحکام اور خوشگوار سول ملٹری تعلقات سے خوفزدہ ہیں اور سول ملٹری تعلقات میں رخنہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم ان کو اس میں ناکامی ہوگی اور ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ فوج اور سول قیادت میں اختلاف چاہتے ہیں وہ اس مائنڈ سیٹ سے نکلیں، حالات نارمل رہیں۔ ہم ملک کو متحد ہو کر مشکلات سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چودھری نثار علی خان نے آرمی چیف کے دورہ¿ امریکہ پر شکوک کو دور کرنے کیلئے جو گفتگو کی ہے وہ اس حوالے سے اُٹھائے گئے خدشات دور کرنے میں مدد دیتی ہے۔ آرمی چیف کے دورے کے حوالے سے وائٹ ہاﺅس سے جاری کردہ ب یان میں کہا گیا ہے کہ نائب صدر جوبائیڈن سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملاقات 22 اکتوبر کو وزیراعظم نوازشریف سے ناشتے پر جوبائیڈن کی ہونےوالی ملاقات کا فالو اپ تھی۔ جنرل راحیل سے ملاقات پاک امریکہ تعلقات کو مزید بہتر کرنےکی جاری کوششوں کا حصہ تھی۔ بیان کے مطابق اس ملاقات میں امریکی نائب صدر نے پاکستان سے مضبوط تعلقات مزید بہتر کرنے کیلئے امریکی کوششوں کا اعادہ کیا جس میں دہشتگردی کا خاتمہ، اقتصادی اور علاقائی سلامتی کے معاملات شامل ہیں۔ امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے پاک فوج کے سربراہ کا دہشتگردی کےخلاف جاری مہم میں جانبدار کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا اور اس ضمن میں مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ دونوں ملکوں نے افغانستان میں قیام امن کی کوششیں جاری رکھنے اور انہیں کامیاب بنانے کے عزم کا بھی اعادہ کیا تاکہ علاقائی سیکیورٹی اور خطے کو درپیش خطرات ختم ہو سکیں۔ امریکی دفتر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کا دورہ دونوں کے درمیان جاری مشاورتی عمل کا حصہ ہے۔ ہم ان مذاکرات، جو دو طرفہ دفاع اور سلامتی کے متعلق ہیں کو قابل ستائش قرار دیتے ہیں۔ امریکہ کے دورے کے دوران جنرل راحٰل شریف نے اعلیٰ امریکی دفاعی حکام، فوجی قیادت، انٹیلی جنس حکام کے علاوہ نائب صدر جوبائیڈن اور سیکرٹری خارجہ جان کیری سے بھی ملاقاتوں میں اہم علاقائی امور، پاک بھارت تعلقات، افغانستان میں امن کیلئے کوششوں، پاکستان میں دہشتگردی کےخلاف آپریشن سمیت تمام اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اسی دورے کے اختتام پر پاکستان کے سفارت خانے میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے جنرل راحٰل شریف نے کہا کہ پاک فوج اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے پُرعزم ہے۔ دہشتگردی کےخلاف جاری جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائےگا۔ انسداد دہشتگردی کےخلاف مہم کسی صورت نہیں رُکے گی۔ آپریشن میں رکاوٹ ڈالنے والوں کےخلاف بھی کارروائی کرینگے۔ دہشتگردی کےخلاف آپریشنل معاملات بہت پہلے شروع ہونے چاہئیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کےساتھ برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں مگر مودی کے امن کے متعلق خیالات کچھ اور ہیں، افغان مصالحتی عمل میں رکاوٹ ڈالنے والے بہت ہیں۔
چودھری نثار علی خان کی گفتگو سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ آرمی چیف کے دورہ¿ امریکہ کے بارے میںمختلف حلقے جو گفتگو کر رہے ہیں وہ ایک مخصوص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو پاکستان میں جمہوریت کا استحکام اور فوج سول اچھے تعلقات کو پسند نہیں کرتے۔ملک میں مخصوص طبقہ جمہوری حکومت کواُلٹنا چاہتا ہے حالانکہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں عوام کی طرف سے ایک بار پھر جمہوری حکومتوں کے نمائندوں کی بھاری اکثریت کو منتخب کر کے عوام نے ایک بار اپنامینڈیٹ دیدیا ہے جس سے جمہوریت کو نیا خون ملا ہے۔ امریکی نائب صدر سے آرمی چیف کی ملاقات کو خود وائٹ ہاﺅس کے بیان میں وزیراعظم کے حالیہ دورہ¿ امریکہ کا فالو اپ اور دونوںمیں جاری مسلسل رابطوں اور مشاورت کا تسلسل قرار دیا گیا ہے۔ ان تمام عوامل کے بعد اس حوالے سے بحث ختم ہو جانی چاہیے تاکہ ملک دہشتگردی کےخلاف جو جنگ لڑر ہا ہے اس میں کوئی رخنہ یا رکاوٹ نہ پڑے اور ملک درست راستے پر چلتا رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button