بدعنوانی پاکستانی معاشرے کیلئے زہر قاتل
روزانہ بد عنوانی اور لوٹ مار کے نئے نئے واقعات سامنے آرہے ہیں اور یہ لوٹ مار ملک گیر ہے بلکہ جو پاکستانی افسران ملک سے باہر تعینات کئے جاتے ہیں وہ بھی لوٹ مار کی گنگا میں غوطے لگاتے ہیں۔ تازہ ترین انکشاف یہ ہے کہ پاکستان کے سفیر اور سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی وزارت خارجہ کے سیکرٹری کی حیثیت سے تنخواہ اور الاﺅنس حاصل کرتے رہے اور بلجیم میں پاکستان کے سفیر کی اضافی ذمہ داریوں کی مکمل مراعات بھی وصول کرتے رہے۔ جلیل عباس جیلانی نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر گریڈ22 سے گریڈ21 میں تنزلی کے باوجود گریڈ 22 سے ملنے والی مراعات واپس نہیں کیں۔ حکومت پاکستان کے قواعد و ضوابط کے مطابق اگر کسی افسر یا اہلکار کو اضافی ذمہ داریاں سونپی جائیں تو وہ اضافی چارج کا 20 فیصد الاﺅنس حاصل کر سکتا ہے جو زیادہ سے زیادہ چھ ہزار روپے ماہانہ ہو سکتا ہے۔ وزارت خارجہ کے ریکارڈ کے مطابق جلیل عباس جیلانی کو3مارچ2012ءکو خارجہ سیکرٹری تعینات کیا گیا۔ وزارت خارجہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق ان کو بلجیم میں سفیر کی اضافی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئیں ۔ وہ وزارت خارجہ کے سیکرٹری کی حیثیت سے تنخواہ اور الاﺅنس کے حقدار تھے لیکن بطور سفیر پوری تنخواہ اور الاﺅنس لینے کے حقدار نہیں تھے مگر وہ پوری تنخواہ لیتے رہے ان کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ91 ہزار525 روپے بنتی تھی لیکن انہوں نے ماہانہ 8لاکھ84 ہزار683 روپے وصول کئے اور سات ماہ کے عرصے میں48 لاکھ52 ہزار106 روپے اضافی وصول کر لیے۔گریڈ21 میں تنزلی کے باوجود گریڈ22 میں حاصل کی گئی اضافی تنخواہ اور مراعات بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیں۔یہ صاحب اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے23 اخبارات و جرائد سرکاری خرچ پر خریدتے رہے۔ بلجیم سے وطن واپسی پر سامان کی منتقلی کی مد میں بھی 9 لاکھ45 ہزار روپے اضافی وصول کئے لیکن یہ بد عنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی بڑی معمولی سی مثال ہے۔
سیکرٹری خارجہ اور سفیر کے طور پر کام کرنے والے اتنے بڑے افسر کیلئے یہ تو معمولی باتیں ہیں۔ ملک کے باہر اپنی حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے وہ اکیلے تو نہیں ہیں ان سے کم گریڈ کے افسران کھل کھیلتے ہیں لیکن ان پر کون ہاتھ ڈالے۔ دراصل ایسے لوگ اکیلے نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے ایک طویل سلسلہ ہوتا ہے اور ہر ایک اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔ملک کے اندر روزانہ ہی اربوں روپے کی بد عنوانی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ کروڑوں روپے ہڑپ کر جانا تو کوئی بات ہی نہیں ہے یہ تو افسر شاہی اپنا حق سمجھتی ہے آخر وہ قوم کی خدمت بھی کرتی ہے ۔نیب آئے دن اربوں روپے کی کرپشن کا انکشاف کرتی رہتی ہے۔اسلام آباد سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب اطلاع دیتے ہیں کہ سندھ میں بے تحاشا بد عنوانی ہوئی ہے۔ حاجیوں تک کو نہیں چھوڑا گیا۔ ہمارے پاس ثبوت ہیں۔ویسے میں خود 2010میں فیملی کیساتھ حج پر موجود تھا اور جو کچھ اس دور اور خصوصاً اس سال حاجیوں کیساتھ ہوا خدا کی پناہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ائیر پورٹ پر ہمارا کوئی پرسان حال نہ تھا اور جب ہم مکہ مکرمہ 28گھنٹے کے بعد پہنچے تو بلڈنگ میں پہنچا دیا گیا اس فلائٹ میں ہمارے ساتھ256حجاج تھے لاہور سے روانہ ہونے سے پہلے ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ حج سے پہلے مدینہ شریف جائیں گے مگر کافی دن گزرنے کے بعد بھی کوئی امید نظر نہ آرہی تھی کچھ ہمت کر کے اس وقت کے بریگیڈئیر صاحب سے رابطہ کیا تو موصوف فرماتے ہیںکہ آپ لوگ پاکستان کی سبکی کرواتے ہیں ہمارے پاس بلڈنگز ہی نہیں ہیں۔بہر حال کافی بحث مباحثے کے بعد اور احتجاج کے بعد ہمیں مدینہ پاک بھجوایا گیا تھا اور اگر ہمیں حج سے پہلے نہ بھجواتے تو شاید ہمیں موصوف انتظامیہ مدینہ لے کر ہی نہ جاتے اور بہت سے حاجیوں کیساتھ ایسا وریہ اپنایا گیا تھا۔بہر حال چوہدری نثار صاحب ان لوگوں کو پکڑیں۔ ویسے میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری نثار پاکستان کا قد دنیا میںبڑھانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔وفاقی حکومت کیا کررہی ہے سوائے اطلاعات فراہم کرنے کے اب ان باتوں پر حکومت سندھ اور اس کے وزراءشور مچاتے ہیں کہ بد عنوانی صرف سندھ میں نظر آتی ہے۔ اس حد تک یہ بات صحیح ہے کہ بد عنوانی تو ملک گیر ہے بلکہ ملک سے باہر بھی پھیلی ہوئی ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ جس طرح سندھ پر توجہ دی جارہی ہے ملک کے دیگر حصوں خاص طور پر پنجاب پر نہیں دی جارہی۔ اس میں جانبداری کا تاثر تو ملتا ہے۔ سندھ میں رینجرز کو خصوصی اختیارات دئیے گئے لیکن پنجاب میں رینجرز کو طلب کر کے انہیں ایسا کوئی اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ پولیس کی جگہ مجرموں کو پکڑ لیں یا بد عنوان عناصر پر ہاتھ ڈالیں۔ کیا پنجاب حکومت کو بھی وہی خدشات تھے جو سندھ حکومت کو ہیں؟ پنجاب میں تو پولیس گردی سندھ سے کہیں زیادہ ہے اوروہاں کا وزیر قانون وہ ہے جس پر خود کئی الزامات ہیں ایک اوروزیرکی وڈیو بھی کب سے گردش میں ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی اعلیٰ شخصیات بد عنوانی کے شکنجے میں ہیں چنانچہ سندھ حکومت کا یہ احتجاج تو غلط نہیں کہ صرف ہم ہی چور نظر آتے ہیں لیکن یہ بھی تو دیکھا جائے کہ اگر سندھ میں بھی خرابیاں ہیں تو دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنا دامن صاف کریں اور دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔
بہر حال سندھ ہو یا کوئی اور صوبہ یا خود وفاق، عوام کے حال پر رحم کرتے ہوئے بد عنوانی اور لوٹ مار پر قابو پائیں اور اگر ایسا ہو گیا تو بین الاقوامی سود خوروں کے سامنے جھولی پھیلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پاکستان ہی کے لوگ عرب کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ شریف خاندان کے بارے میں بھی یہی مشہور ہے کہ ان کا کاروبار بیرون ملک پھل پھول رہا ہے۔ اس کا کچھ پھل پاکستان کو بھی مل جائے، کچھ پھول یہاں بھی بکھرنے دیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ جب تک بد عنوانوں کو سخت ترین سزائیں نہیں دی جائیں گی اور پلی بارگین کے نام پر چھوٹ ملتی رہے گی اس وقت تک یہ ناسور ختم نہیں ہو گا۔
٭٭٭