Tayyab Mumtaz

دہشتگردی میں ایمبولینسوں کے استعمال کا خطرہ!!!

tayyabپاکستان 15 برس سے جس دہشت گردی کا مقابلہ کررہا ہے اس میں آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائیوں کے بعد کافی حد تک کمی آچکی ہے۔ کراچی میں رینجرز کی زیر قیادت آپریشن سے وہاں بھی حالات میں بہتری ہوئی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواءبرائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ خیبر پختونخوا ، پنجاب اور اندرون سندھ میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں بھی خاصی کمی واقع ہو چکی ہے مگر دہشت گرد ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکے۔ حالیہ دنوں میں داعش کے ہمدرد یا اس کیلئے افراد کی بھرتی کے حوالے سے متعدد افراد کو مختلف سکیورٹی اداروں نے حراست میں لیا۔ اس دوران 2 دہشت گرد ایک ایمبولینس سے پکڑے گئے۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کوہاٹ سے ایک سیکیورٹی ادارے کی ایمبولینس میں ایک میت لاہور بھجوائی گئی اس میت کے پوسٹ مارٹم کے دوران اس کی جسم میں بارودی مواد بھرا گیا اور اس کو سیکیورٹی اداروں کی ایمبولینس استعمال کرتے ہوئے لاہور بھجوایا گیا میرے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ایمبولینس کو پورے راستے کہیں چیک اس لیے نہ کیا جاسکا کہ یہ ایک ایسے ادارے سے تعلق رکھتی تھی جس پر شق کرنا تو دور کی بات ایسا سوچنا بھی جرم بن سکتا تھا ۔لاہور پہنچنے پر ڈاکٹرز کو شق گزرا تو انہوں نے اس کو چیک کیا جس پر یہ انکشاف ہوا ہے ڈرائیور کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور تفتیش جاری ہے یہاں اصل سوا یہ ہے کہ ہماری صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کے ہمدرد ہیں یا پیسوں کیلئے سہولت کاری کرتے ہیں ایسے بہت سے واقعات سندھ میں ہو چکے ہیں جس میں اغوا برئے تاوان اور دہشتگردوں کو اسلحہ کی سپلائی ایمبولینسز میں ہوتی رہی ہے اس سارے معاملے کو غور سے دیکھنا ہو گا اور ہمارے سیکیورٹی اداروں کو اس کا سدباب کرنا ہوگا۔
اس گرفتاری کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کو رپورٹ دی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ داعش سمیت دیگر دہشت گرد تنظیمیں اور عناصر ایمبولینسوں کی مدد سے ہسپتالوں کو اپنی کارروائی کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس رپورٹ پر وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ سرکاری و نجی ہسپتالوں اور این جی او کی ایمبولینسوں کی تلاشی کے بعد ہی ان کو کام کرنے کیلئے سڑکوں پر آنے کی اجازت دی جائے۔ اس کے علاوہ شاہراہوں پر ایمرجنسی ہوٹر کا استعمال مریض کی غیر موجودگی میں بالکل نہ کیا جائے اگر کوئی ایمبولینس بغیر مریض کے ہوٹر استعمال کرے تو اس کا چالان کیا جائے ۔ایسی ایمبولینس جن پر مریضوں کی حالت تشویشناک ہو ان کی چیکنگ مریض چھوڑنے کے بعد کی جائے۔ اس مقصد کیلئے سرکاری و نجی ہسپتالوں ، غیر سرکاری انجمنوں اور تنظیموں و اداروں کی ایمبولینسوں کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اسی طرح ایک ضلع سے دوسرے ضلع جانیوالی ایمبولینسوں کو کلیئرنس کے بعد داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ آئی جی پولیس نے پنجاب میں ایمبولینسوں کے کام کے حوالے سے جو احکامات جاری کئے ہیں ضلعی افسران کو ان پر عمل پیرا کرتے ہوئے اس امر کا خصوصیت سے اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کی چیکنگ کے دوران ایمبولینسوں میں موجود کسی مریض کی کلیئرنس میں اتنی دیر نہ ہو جائے کہ مریض کی زندگی خطرے میں پڑ جائے۔ اسی طرح محکمہ پولیس ہر شہر میں موجود ایمبولینسوں کا مکمل ڈیٹا اکٹھا کرے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ہر شہر میں کتنی ایمبولینسس ہیں ۔ چیک ہو جانے والی ایمبولینسوں پر مخصوص سٹیکر یا نشان لگا دیا جائے اور ایسی ایمبولینسوں کو مریض لے جاتے ہوئے کم از کم وقت میں فارغ کیا جائے۔ پولیس اس امر کو یقینی بنائے کہ وہ اس معاملے کو انسانی زندگی محفوظ بنانے کیلئے عمدہ طریقے سے حل کرے گی تاکہ عوام دہشت گردی سے محفوظ رہ سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button