اقتصادی راہداری، قومی اتفاق رائے ہماری ذمہ داری

چنانچہ جمعہ15جنوری کو وزیراعظم کی زیر صدارت تمام پارلیمانی سربراہوں کے اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ راہداری کا مغربی روٹ ترجیحی بنیادوں پر اگلے اڑھائی برس میں مکمل کرلیا جائے گا ۔ تمام اقتصادی زون صوبوں کی مشاورت سے بنائے جائیں گے ۔ وزیراعظم مغربی روٹ پر کام کی خود نگرانی کریں گے جبکہ آئندہ بھی اس حوالے سے تحفظات کے ازالے کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں11رکنی سٹیرنگ کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے ۔ کمیٹی کا اجلاس ہر تین ماہ بعد ہوگا کانفرنس میں وزیر منصوبہ بندی وترقیاتی احسن اقبال نے شرکاءکو سی پیک خصوصاً مغربی روٹ پر تفصیلی بریفنگ دی ۔ اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیاگیا ۔ اعلامیہ کے مطابق مغربی روٹ 15جولائی2018ءتک مکمل کرلیا جائے گا ۔ ضرورت پڑی تو مغربی روٹ کے لیے فنڈز بڑھا دیئے جائیں گے ۔ ایکسپریس وے کو چھ رویہ کرنے کی گنجائش ہو گی ۔ مغربی روٹ پہلے مرحلے میں چار رویہ ہوگا بعد میں اسے چھ رویہ کردیا جائے گا ۔ نگران کمیٹی میں وزیراعظم کے علاوہ چاوروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزراءاعلیٰ ، اقتصادی راہداری کی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید ، وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف ، احسن اقبال، وزیر ریلوے سعدرفیق اور وزیر مملکت برائے صوبائی رابطہ عبدالحکیم بلوچ شامل ہوں گے ۔ صوبوں کے ساتھ معلومات کے تبادلہ اور تعاون کے لیے وزارت منصوبہ بندی وترقی میں ایک سیل بھی قا ئم کیا جائے گا ۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ موٹروے کے زمینوں کا حصول صوبوں کی ذمہ داری ہوگی ، زمین کی خریداری کے لیے فنڈز وفاقی حکومت ادا کرے گی ۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبہ قومی منصوبہ ہے اس میں تمام علاقے اور صوبے شامل ہیں ، اس کے نتیجہ میں تمام صوبوں میں تعمیر وترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا ۔
میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے تدبر اور تحمل کامظاہرہ کرکے پاک چین اقتصادی راہداری پر تمام خدشات وتحفظات دور کرکے قومی سیاسی قیادت کا اتفاق رائے حاصل کرلیا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے عظیم سفر کی کامیابی کا راستہ کھول دے گا ۔ ماضی میں سیاسی حکومتوں نے قومی منصوبوں پر مطلق العنانیت کا رویہ رکھا جس کی وجہ سے قومی مفاد کو نقصان پہنچتا رہا ۔ سانحہ پشاور کے بعد قومی، سیاسی وعسکری قیادت نے جس اندام میں قومی مفاد کے لیے مختلف اقدامات پر اتفاق کرکے نیشنل ایکشن پلان پر عمل کا آغاز کیا تھا آج پورے ملک میں اس کے مثبت اثرات نظر آرہے ہیں ۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے مغربی روٹ پر صوبہ خیبر کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور بعض دیگر لیڈروں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا جو وزیراعظم کے 15جنوری کو بلائے گئے اجلاس میں دور ہو گئے ۔ اس سے پہلے گزشتہ برس23مئی کو اے پی سی میں وزیراعظم نے اس منصوبے پر قومی اتفاق رائے حاصل کیا تھا مگر بعض ملک دشمن عناصر اس منصوبے کے بارے میں مسلسل منفی تنامعات اچھالتے رہے ۔ جمعہ کے اجلاس کے بعد قوم توقع رکھتی ہے کہ مغربی روٹ پر اب تیزی سے کام ہوگا اور اعلان کردہ شیڈول کے مطابق یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچے گا ۔ پارلیمانی سربراہوں کی کانفرنس کے شرکاءمیں احساس پایاگیا کہ کالا باغ ڈیم منصوبہ ترک کرکے بہت بڑی غلطی کرچکے ہیں ۔ اب ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیے پاک فوج بھی اس منصوبے کی حفاظت اور تکمیل میں پوری طرح شامل ہے اور فوج نے ایک پورا ڈویژن اس کی حفاظت پر مامور کردیا ہے ۔ صوبائی حکومتوں کو تخریبی عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک پارٹی یا حکومت کا منصوبہ نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کا منصوبہ ہے ۔ جو اس کی تکمیل کے لیے پُر عزم ہیں کیونکہ یہ منصوبہ پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے واقعی گیم چینجر ثابت ہونے کے امکانات رکھتا ہے ۔