Tayyab Mumtaz

احتساب کیساتھ خود احتسابی کی ضرورت

tayyabوزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں خطاب کے دوران کہا کہ اسلام آباد میں جہاں جہاں غلط کام ہوا ہے اسے ریگولو نہیں درست کرنا چاہیے،سب کے ساتھ برابری کا رویہ ہو، اسلام آباد میں رہائشی علاقوں میں سکول، بیوٹی پارلر، گیسٹ ہاﺅس جن سی ڈی اے ملازمین نے بنوائے اور ماہانہ بھتہ لیتے رہے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جن لوگوں نے کچی بستیاں بنوائیں اور چلے گئے ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے، اسلام آباد میں کچی آبادیاں اور رہائشی علاقوں میں پرائیویٹ سکول قائم کرنے میں مدد فراہم کرنے والے سی ڈی اے افسران کے خلاف ایکشن لیا جائے گا اگر انتظامیہ اور تمام سرکاری مشینری اپنا کام کررہے ہوتے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے جن لوگوں نے غلط کام کئے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، اسلام آباد کو محفوظ ماڈل شہر بنائیں گے پھر اس ماڈل کو چاروں صوبوں کے وزراءاعلیٰ کو پیش کریں گے تو ممکن نہ ہو گا کہ شہر میں کوئی دہشت گردی اور گاڑی چوری کی واردات ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی کمپنیاں مافیا بنی ہوئی ہیں مناسب سکیورٹی مافیا بنی ہوئی ہیں، مناسب سکیورٹی فراہم نہ کرنے والی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کر دئیے جائیں گے، اسلحہ لائسنسوں پرسے محدود پابندی اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں اسلحہ لائسنس میڈیا ہاﺅسز کو مشروط طور پر جاری کئے جائیں گے، ہر میڈیا ہاﺅس کو چارنجی گارڈ رکھنا ضروری ہوں گے، میڈیا ہاﺅسز کی درخواست پر ایف سی اہلکاروں کو بھی تعینات کیا جاسکے گا، میڈیا ہاﺅسز کی چھت پر ایک سکیورٹی اہلکار ہر وقت موجود رہے گا جس کے پاس خود کار ہتھیار ہو گا جو پولیس فراہم کرے گی جبکہ گیٹ پر کھڑے سکیورٹی اہلکار اور چھت پر کھڑے سکیورٹی اہلکار کے درمیان وا کی ٹاکی کے ذریعے رابطہ ہو گا، پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز کو پولیس ٹریننگ دے گی، میڈیا دفاتر کی سکیورٹی سے متعلق ایس پی سطح کے افسر کو فوکل پرسن تعینات کیا جائے گا، زیادہ تر انٹیلی جنس اطلاعات جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں۔ میڈیا پر انٹیلی جنس رپورٹوں کی تشہیر سے خوف و ہراس پھیلتا ہے جو دہشت گرد چاہتے ہیں، میڈیا دہشت گردی کے حوالے سے بریکنگ نیوز کا مقابلہ نہ کرے، میڈیا ذمہ داری کا احساس کرے اور ایسی چیزوں سے اجتناب کرے جس سے خوف و ہراس پھیلے اور ایسی تصاویر سے بھی احتیاط برتی جائے جس سے دہشت گرد خوش ہوں، اجلاس میں میڈیا ہاﺅسز کی سکیورٹی کا جائزہ لیا گیا۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد کو امن وامان کے لحاظ سے ایک ماڈل شہر بنانے کے حوالے سے جس خواہش کااظہار کیا ہے اگر اس پر واقعتاً عمل درآمد بھی ہو جائے تو یقیناً اس ماڈل کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کو پر امن بنایا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں قائم ترقیاتی ادارے لینڈ مافیا کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور سپریم کورٹ اس پر کڑے ریمارکس بھی دے چکی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وفاقی دارالحکومت ہو یا چاروں صوبائی دارالحکومت، ان میں کچی آبادیوں کے قیام میں منتخب جمہوری حکومتوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ہر عام انتخابات کے موقع پر برسر اقتدار سیاسی جماعتیں ان کچی آبادیوں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق کے دستاویزات فراہم کرتی رہیں اور یوں اپنے ووٹ بینک کے حجم میں اضافہ کرتی رہیں ۔یہاں تک کے بیت المال کے ذریعے چیکوں ،ویل چیئرز کی تقسیم سے بھی کام چلایا جاتا رہا ہے۔ محض پیش یا افتادہ مفادات کیلئے منتخب اور غیر منتخب حکمرانوں نے کچی آبادیوں کو اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے ایک ڈھال تصور کیا یہاں تک کہ جب کسی ڈکٹیٹر کے خلاف سیاسی جماعتوں نے احتجاجی تحریک چلائی تو اس کے شرکاءکی اکثریت کچی آبادیوں ہی سے برآمد کی گئی۔ چوہدری نثار نے درست کہا ہے کہ حقیقی احتساب کی عدم موجودگی کی وجہ سے معاشرے میں بے ضابطگی بے قاعدگی اور بدعنوانی فروغ پاتی رہی۔ احتساب کا عمل ہمیشہ بالائی سطح سے شروع ہوتا ہے۔ جب اعلیٰ اور بالا افسران اور سیاسی و سماجی شخصیات کو مقدس بچھڑے تصور کر کے ان پر کوئی احتسابی ادارہ ہاتھ نہیں ڈالتا تو نتیجتاً نچلی سطح پر بھی کرپشن کا ناسور اس بری طرح پھیل جاتا ہے کہ اس کیلئے پھر کیموتھراپی اور ریڈی ایشنز کو بروئے کار لانا ضروری ہو جاتا ہے۔
عوامی مطالبہ ہے کہ احتساب بلا امتیاز، شفاف اور میرٹ پر ہونے کے ساتھ ساتھ برسر عام بھی ہو۔یہ امر مستحسن ہے کہ وزیر داخلہ نے میڈیا ہاﺅسز کے تحفظ کیلئے اہم اور ناگزیر سکیورٹی اقدامات کی نشاندہی کی ہے۔ میڈیا ہاﺅسز کے مالکان کا فرض منصبی ہے کہ وہ اس سلسلے میں وزیر داخلہ کو مزید مفید مشورے دینے کے ساتھ عملی اقدامات بھی کریں تاکہ میڈیا ہاﺅسز میں کام کرنے والے ملازمین کی زندگیاں دہشت گردی اور تخریب کارانہ وارداتوں سے محفوظ رہ سکیں۔ دہشت گردی کے انسداد کی جانب بھی وزیر داخلہ نے توجہ دلائی ہے لیکن انہیں یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ صوبائی دارالحکومتوں میں اعلیٰ سطح کی بیورو کریسی اور وزراءکی رہائشگاہوں پر مشتمل بستیوں کی سکیورٹی کو جس طرح فول پروف بنایا جاتا ہے، اسی طرح ہر محلے اور بستی کے شہریوں کی زندگی کے تحفظ کیلئے جامع اور مربوط سکیورٹی اقدامات کئے جائیں۔
کیا اچھا ہو کہ ہم ہر کوئی محلہ وارڈ کی سطح پرپلنے والے ایسے ناسوروں کو منظر پر لائیں اور ان کا قلع قمع کریں تاکہ ہمارا ہر گھر ہرمحلہ ہر شہر امن کا گہوارہ ہو اور دہشتگردی سے بچ سکے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ہر کسی کو اپنی اپنی سطح پر اپنا فرض سمجھنا ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button