ایم کیو ایم بنانے والے اس سے ناراض ؟

tayyabمصطفی کمال کی سیاسی انٹری نے سیاست کا موضوع ہی بدل ڈالا ہے ۔ ایم کیو ایم میں کچھ ہونے جارہا ہے ؟ کراچی میں کچھ ہونے والا ہے ؟ سندھ میں کچھ ہونے والا ہے ؟ یہ تینوں سوال ویسے ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک ہی سوال ہے جس کومختلف انداز میں پیش کیا جارہا ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی رہی ۔ پیپلزپارٹی نے بھی اسے اس آس پر اپنے گلے کا ہار بنائے رکھا کراچی میں امن رہے لیکن صورت حال کسی کے بھی قابو میں نہیں لگ رہی تھی ۔ کراچی میں کرپشن اور کرائم جب تک ایک لیول پر تھے تو ہر کوئی اس لوٹ مار میں حسب توفیق شریک رہا ۔ لیکن جب کرائم اور کرپشن کسی دائرے کے محتاج نہ رہے تب کراچی میں آپریشن شروع کرنا ضروری سمجھا گیا ۔ یہ وہ آپریشن تھا جس کو نہ عدالتی احکامات اور نہ ہی حکمرانوں کی دبی ہوئی خواہش عملی جامہ پہنا سکی تھی ۔ یہ آپریشن عملی طور پر کرپشن اور دہشت گردی دونوں کے خلاف تھا ۔ لہٰذا اسے بد نصیبی کہئے کہ سندھ کی دو بڑی پارلیمانی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو بیک فوٹ پر جانا پڑا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آصف زرداری بیرون ملک ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ یہاں پر پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں پر مقدمات اور نیب کے پاس طلبی جاری ہے ۔
ادھر متحدہ کے سربراہ لندن میں منی لانڈرنگ ، عمران فاروق کے قتل کے مقدمات سے جان نہیں چھڑا سکے ہیں ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کی صحت پہلے جیسے نہیں رہی ۔ ان کے ٹیلی فونک خطاب پر پابندی ہے ۔ پارٹی کے متعدد کارکن گرفتار ہوچکے ہیں اور باقی عدالتوں میں حاضری دے رہے ہیں ۔ پارٹی پر ان کی گرفت اب بھی برقرار ضرور ہے لیکن کارکنان کی پہلے والی بجا آوری نہیں ۔ گزشتہ سال ڈیڑھ سال سے بار بار رابطہ کمیٹیاں ٹوٹتی اور از سر نو بنتی رہیں ۔ تنظیمی ڈھانچے میں متعدد تبدیلیاں کی جاتی رہیں ۔ بعض کو عہدوں سے فارغ کردیاگیا بعض کو نئی ذمہ داریاں سونپی گئیں ۔ یہ اندرونی توڑ پھوڑ ابھی جاری تھی کہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی جانب سے پارٹی کی قیادت پر ایک اور دباﺅ بڑھ گیا ۔
ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن اور شکایات کے بعد اردو بولنے والوں کو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی آپشنز کے طور پر دئیے گئے ۔ تحریک انصاف کراچی میں نا تجربہ کار تھی اور وہ کراچی میس اپنا سٹیک نہیں سمجھتی تھی ۔ جماعت اسلامی ماضی کے واقعات کی وجہ سے سہمی ہوئی تھی اور اس کے پاس کوئی ولولہ انگیز قیادت بھی نہیں تھی ۔ جب تک جماعت اسلامی کی قیادت کا کوئی حصہ کراچی میں ہوتا تھا ، یہ جماعت اس میٹرو پولیٹن شہ رمیں اپنا سیاسی اثر رکھتی تھی جب اوپر کی سطح پر تبدیلیاں ہوئیں اور ترجیحات بھی تبدیل ہوئیں کراچی اس کے ہاتھ سے جاتا رہا ۔آخر کراچی کے لوگ باہر کی قیادت کو کیوں تسلیم کریں ؟ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کراچی میں خلاءپرکرلیتی تو مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کو میدان میں اتارنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ ایم کیو ایم کو اندر سے توڑنے کے تجربات پرانے ہیں ۔ حقیقی سے لے کر بعد میں ایک درجن مرتبہ اندرونی بغاوت کی کوششیں کی جاتی رہیں ۔ لیکن نتیجہ نہیں نکلا ۔ یہ سب تجربے فلاپ رہے ۔ اس طرح کی کوشش ایک اور مہم جوئی ہوسکتی ہے بلکہ وہ متحدہ کو مزید مضبوط بنا سکتی ہے ۔
مائنس ون فارمولا مختلف وقتوں میں مختلف پارٹیوں بشمول پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے لیے چلایا جاتا رہا ۔ وقت نے ثابت کیا کہ اس طرح کے مصنوعی فارمولے نہیں چلتے ۔ سیاست بعض حقائق کا نام ہے ۔ آپ کسی کی پسند کو متبادل دے کر ناپسند میں تبدیل نہیں کرسکتے ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ جب تک متحدہ کے سربراہ زندہ ہیں تب تک یہ پارٹی اسی کے گرد گھومتی رہے گی ۔ ہاں پارٹی کے لیے مشکل وقت ضرور ہے ۔ جب پارٹی اور اس کے فیصلے ایک فرد کے گرد گھومتے ہوں ، جب ان کی صحت کے معاملات بھی ہوں، بیرون خواہ اندرون ملک مقدمات بھی قائم ہوں، پارٹی کے اندرونی مسائل کے ساتھ ساتھ بیرونی دباﺅ بھی ہو، ایسے میں مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی جانب سے ”بمباری“ یقینا نئی مشکلات پیدا کرچکی ہے ۔
برطانیہ میں زیر سماعت معاملات میں انہیں وقتی طور پر ریلیف ملا ہوا ہے ۔ لیکن یہ لٹکتی ہوئی تلوار تو ہے ۔ پاکستان میں عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش بھی درد سر ہے ۔ اہم رہنما مختلف عدالتو ںکے چکر کاٹ رہے ہیں ۔
لہٰذا متحدہ کسی بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ۔ کیونکہ اس ضمن میں یہ پیغام واضح طور پر دے دیاگیا ہے کہ اب کراچی میں ہڑتال نہیں ہوگی ۔ دوچار احتجاج اور دو چار دن بھوک ہڑتال کرنے والے جانتے ہیں کہ گوٹ کہاں پھنسی ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب وزیراعظم کے بجائے براہ راست اسٹیبلشمنٹ کا نام لیتے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ یہ بات سمجھنے میں متحدہ کو خاصا وقت لگا ۔ جس اسٹیبلشمنٹ کے وہ دلدار تھے ، جس کے کہنے پر ان کے خَاف قائم سیکڑوں مقدمات ختم ہوجاتے تھے اور اس اسٹیبلشمنٹ کے ہر ضرورت کے وقت وہ کام بھی آئے ۔ وہ ان سے یوں منہ موڑ لے گی ؟ حالات بدل چکے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کو اب ایسی ایم کیو ایم نہیں چاہیے ۔
اب ایک کمال کی انٹری ہوئی ہے تو وہ خاموش ہو گئی ہے ۔ اگرچہ کسی جماعت کے معاملات کو اس طرح سے ادھیڑنا سیاسی طور پر جائز نہیں لیکن نواز لیگ خامو ش ہے اس لئے کہ وہ پہلے ہی بہت سے ایشوز پر اسٹیبلشمنٹ سے دور کھڑی ہے ۔ ایسے میں ایم کیو ایم کے معاملے کو وہ پرائی فلم سمجھتی ہے اور اپنے گلے میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں ۔ نواز لیگ کب تک خود کو سیاسی معاملات سے چشم پوشی کرتی رہے گی ؟ سندھ میں پیپلزپارٹی اور متحدہ کے معاملات ہوں یا دیگر امور۔
الطاف حسین پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ نئے نہیں ۔اسٹیبلشمنٹ براہ راست خواہ بالواسطہ طور پر یہ الزامات لگاتی رہی ہے اور یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اس ضمن میں ٹھوس ثبوت بھی موجود ہیں ۔ اگر ایسا واقعی ہے ۔
ایم کیو ایم پرجب بھی حملہ ہوا اس نے شدت کے ساتھ مہاجر کارڈ کھیلا ۔ آفاق منظر آئے، مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کے جواب میں ندیم نصرت آئے تو انہوں نے بھی مہاجروں پر مظالم اور ان کے ساتھ نا انصافیوں کی بات کی ۔ ایم کیو ایم ہو یا اس کو الوداع کہنے والے سب کو یہ کارڈ استعمال کرنا پڑے گا ۔
بعض حلقے ایم کیو ایم کی توڑ پھوڑ پر خوش ہو رہے ہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جتنے اندرونی تضاد بڑھیں گے اتنی ہی لسانی سیاست بھی بڑھے گی ۔ دکھوں کا ازالہ صرف اس وقت ممکن ہے جب سیاست کا وہ انداز تبدیل ہوگا جو ایم کیو ایم نے قائم کئے رکھا ہے ۔ اس توڑ پھوڑمیں سے جو گروپ نکلے وہ ایم کیو ایم کی ایکسٹینشن ہی ہوگی ۔ وہ خود کو زندہ رکھنے کے لیے مزید مہاجریت کا نعرہ دے گا اور سیاست کرنے کی کوشش کرے گا ۔
فاروق ستار نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ مائنس ون فارمولا نہیں چلے گا ۔ مطلب یہ حلقے ایم کیو ایم کو قائم رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس میں الطاف نہ ہوں ۔ بعض حلقے یہ خیال کررہے ہیں کہ صحت وغیرہ کے حوالے سے وہ مائنس ہونے کے قریب ہے اور اگر ایسا ہے تو دوسرے رہنما کیوں نہ قیادت اپنے ہاتھ میں لینے کی امید لگائیں یا کوشش کریں ؟ اس وقت جو تضاد ابھرا ہے وہ الطاف سے زیادہ تعلق ان گروپوں سے ہے جو الطاف کے بعد پارٹی قیادت سنبھالنا چاہتے ہیں ۔ الطاف اپنے سیاسی جانشین مقرر کرنے کا اعلان کرچکے ہیں ، ان میں محمد انور اور ندیم نصرت بڑے اہم سمجھے جاتے ہیں لیکن ان پر بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کا ایجنٹ ہونے کا الزام ہے ۔ لہٰذایہ حلقے مائنس الطاف نہیں بلکہ مائنس الطاف فارمولے کے خلاف ہوں اور ان دونو ںکا راستہ روکنے کے لیے مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کو میدان میں لے آئے ہوں ۔
کیا اس مرتبہ جو تماشہ لگنے والا ہے اس سے واقعی عوام کا کوئی مفاد حاصل کرنا ہے یا الزامات کی سنگ باری کرکے کچھ اور مقاصد حاصل کرنے ہیں ۔ ایم کیو ایم ان کی برین چائلڈ ہے ۔ لہٰذا اس کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنے سائز میں ۔