Tayyab Mumtaz

ملک کا مستقبل جمہوریت کے تسلسل سے مشروط

برلن میں پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے جرمن میڈیا کو انٹرویو میں بتایا پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے ، جمہوریت کو فوج کی طرف سے ہر ممکن حمایت حاصل ہے ، قومی سلامتی کے تمام اہم معاملات پر مشاورت کی جاتی ہے ، مختلف امور پر جب بھی کوئی اجلاس طلب کیا جاتا ہے توفوج سویلین حکومت، جمہوریت کی حمایت کرتی ہے ، قدرتی آفات سے ترقیاتی کاموں میں فوج سویلین حکومت کی مدد کرتی ہے ۔ پاکستان ہر پاکستانی کی ترجیح ہے ، فوج جمہوریت کی مضبوطی کے لیے حتیٰ الامکان کوشاں ہے ۔ فوج ہر وقت سول حکومت کی مدد کے لیے موجود ہے ، آنے والے دنوں میں سول ملٹری تعلقات مزید مضبوط وبہترہوں گے ۔ پاک فوج کے ترجمان نے مزید کہا دہشت گردوں کے خلاف جتنا کام پاکستان نے کیا کسی اور ملک نے نہیں کیا، پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ امتیازی سلوک ہے، پاکستان نے دنیا کی جنگ لڑی لیکن بعد میں اسے تنہا چھوڑ دیاگیا، پہلے فوج نے شمالی وزیرستان اور پھر خیبر ایجنسی میں آپریشن کیا اور اس کے بعد پاکستان میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر18ہزار آپریشن کئے گئے ۔240دہشت گرد مارے گئے اور ان کے سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیاگیا، مغربی ممالک کے الزامات پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے، پاکستان کو بھارت کی جانب سے خطرہ ہے، بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر نہ ہونے کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے ، ہمارے دفاعی نظام کی بنیاد بھارتی خطرات ہیں ، بھارت کو این ایس جی کی رکنیت دی گئی تو یہ امتیازی سلوک ہوگا ۔
جرمنی میں پاک فوج کے ترجمان نے جمہوریت اور جمہوری حکومت کی حمایت کے حوالے سے جن مستحسن خیالات کا اظہار کیا ہے یقیناً وہ محض لفاظی نہیں بلکہ زمینی حقائق اس تائید وتوثیق کرتے ہیں ۔ موجودہ منتخب جمہوری حکومت کے تین سالہ دور میں کئی ایسے مواقع آئے کہ اس نے نڈھال اور کمزور پڑتی حکومت کو سہارا دیا ۔ تاہم بعض حلقوں کا یہ مطالبہ ہے کہ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ پاکستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسی افواج کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ مطالبہ بجا لیکن قومی اسمبلی کے ایوان میں گزشتہ دنوں وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ خارجہ پالیسی منتخب جمہوری حکومت ہی وضع کرتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے آڑے وقت میں جب بھی عسکری قیادت کو دعوت دی تو اس نے لبیک کہا ۔ موجودہ حکومت جب برسراقتدار آئی تو دہشت گردی کا چیلنج بھیانک اور مہیب شکل اختیار کرچکا تھا ۔ اس موقع پر سیاسی وعسکری قیادت کے اتحاد نے ثابت کیا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہے ۔ یاد رہے کہ قومی ایکشن پلان سیاسی وعسکری قیادت نے مل کر تیار کیا اور اس پلان پر ملک کی تمام سیاسی جماعتو ںنے اتفاق رائے سے اعتماد کا اظہار کیا ۔ اسی دوران سیاسی قوتوں نے دہشت گردی کے انسداد کے لیے آئینی ترمیم کرکے قوم کو مایوسی سے نکالا ۔ جہاں تک عسکری قیادت اور افواج پاکستان کا ابتلا وآزمائش کے موقع پر جمہوری حکومتوں کا ساتھ دینے کا معاملہ ہے تو یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سیلاب،زلزلے اور طوفانی بارشوں کے ریلوں کے موقع پر افواج پاکستان کے افسر اور جوان سب سے پہلے متاثرہ علاقوں میں پہنچے اور مصائب میں گرفتار شہریوں کی بھرپور مدد کی ۔ ان کا یہ کہنا بھی سچ ہے کہ فوج منتخب حکومت کو آڑے وقت میں مشورہ دیتی رہی ہے ۔وہاں پالیسی امور منتخب حکومت ہی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، فوج ان کی زمام نہیں تھامتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج حکومت کو مشورہ دیتی ہے لیکن حتمی پالیسی بنانا منتخب حکومت کا ہی آئینی حق ہوتا ہے ۔ فوج کو بہر صورت سویلین اور منتخب حکومت کی طے شدہ پالیسی کی پیروی کرنا ہوتی ہے ۔ چونکہ پاکستان کے اندر تاثر اس سے مختلف ہے اسی لیے پاک فوج کے ترجمان کو یہ وضاحت پیش کرنا پڑی ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک کا مستقبل جمہوریت سے مشروط ہے ماضی میں جمہوریت کی پامالی کے باعث ملک دو لخت ہوچکا ہے اور بالغ نظر حلقے توقع رکھتے ہیں کہ ہر منتخب جمہوری حکومت کا آئینی حق ہے کہ وہ اپن آئینی دورانیہ پورا کرے اور اس کے لیے بالواسطہ یا براہ راست مشکلات پیدا نہ کی جائیں ۔ مگر ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ یہ تمام واضحتیں دینے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔آرمی چیف ہوں یا ترجمان پاک فوج، مشیر وزارت خارجہ ہوں یا وزیراعظم کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔اور ان بیانات کی ٹائمنگ دیکھیے جب پانامہ لیکس پر پوری اپوزیشن متحد ہو چکی ہے حکومت کو ٹف ٹائم کا سامنا ہے اور خود جناب وزیراعظم صاحب تا دم تحریر لندن میں بیٹھے ہیں اس وقت ایسے اشاروںکا ملنا اور آنا کچھ تو ظاہر کرتا ہے میری اطلاعات کے مطابق اسٹیبلمشنٹ نے واضح پیغام دیا ہے اور ساتھ ساتھ ترکی،چین کی یاترا کے بعد اور خاص طور پر راحیل شریف نے جو اس وقت تک مدت ملازمت میں اضافے کے متمنی نہیں ہیں کہ پاک فوج کی طرف سے ایسے بیانات کی ضرورت پیش آنا معنی خیز ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہیں اور خصوصی طور پر پاک چائنہ اکنامک روٹ کے بارے میں بیانات کا آنا کہ ہر صورت مکمل کیا جائے گا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کسی بات کی تو پردہ داری ہے۔ویسے ذرائع کا دعوی یہ بھی ہے اندرون خانہ نئی چپقلش شروع ہو چکی ہے جس کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ترکی اور چائنہ سے معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کا پروانہ حاصل کر لیا ہے اور امریکی حکام کی گزشتہ ہفتوں میں آرمی چیف سے ملاقاتیں بھی اسی کا حصہ رہی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button