Tayyab Mumtaz

محکمہ تعلیم کی بھی نجکاری ہوگی؟

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں جوتے تو شوکسیز میں بڑی نفاست کے ساتھ رکھ کر بڑے اہتمام سے بیچے اور خریدے جاتے ہیں لیکن کتابیں فٹ پاتھوں پر فروخت ہو رہی ہیں۔ ردی کے حساب سے خریدی اور فروخت کی جارہی ہیں اور کتاب کا سب سے زیادہ منافع کباڑئیے کو اس سے کم منافع پبلشرکو اور سب سے کم فائدہ مصنف کو ہورہا ہے۔
والدین پرائیوٹ میڈیکل کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہیں دلو اسکتے کیونکہ ان کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیسیں اوراخراجات پورے کرنا ان کے بس سے باہر ہوتا ہے آجا کے سرکاری میڈیکل کالج اور یونیو رسٹیاں رہ جاتی ہیں۔ جن میں محدود سیٹیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان اداروں کا میرٹ ہی اتنا ہائی ہوتا ہے کہ اس میرٹ کو سر کرنے کا بھوت ساراسال طالب علموں کے سر پر سوار رہتا ہے۔ اور انہیں خوب اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ایک نمبر کی کمی بیشی سے اس کی زندگی کا معیار اور راستہ بدل سکتا ہے۔ بالخصوص میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے کے خواہش مند طلبا و طالبات تو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے سالوں میں گویا نیزے کی انی پر ٹکے ہوتے ہیں اور امتحانات کے دنوں میں تو ان کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے۔ ایسے میں ایک معمولی سی کو تاہی چاہے وہ طالب علم سے سرزد ہو یاا نتظامیہ سے طلبا ئ و طالبات کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیتی ہے طلبا وطا لبات کو پل پل جینے مرنے کی کیفیت میں مبتلا کر دینے والے اسباب میں سب سے بڑے دو ہی ہیں ایک یہ کہ ملک میں سرکاری میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد کم ہے اور ان میں نشستوں کی بھی کمی ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک میں جتنی بھی تعلیمی پالیسیاں بنائی گئیں اور جتنے اس شعبہ میں تجربے کئے گئے دیگر کسی شعبہ زندگی میں نہیں کئے گئے۔اور اتنے تجربوں اور نت نئی پالیسیوں کے نفاذ کے باوجود آج تک نہ تو کسی تعلیمی پالیسی نے ملک میں اعتدال پیدا کیا ہے اور نہ ہی ملکی ضروریات پوری ہوئی اور اگر کوئی مناسب پالیسی ترتیب پائی بھی تو اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں حکومتوں کے بدلنے سے تعلیمی پالیسیاں حتیٰ کہ نصاب ِ تعلیم بدل جاتا ہے۔ جبکہ یکساں نصاب تعلیم کا نہ ہونا بھی قوم کو کئی طبقات میں تقسیم کرنے کا باعث بن چکا ہے۔
پچھلے دو تین عشروں سے ملک میںنجی تعلیمی اداروں نے اس قدر دولت کمالی ہے کہ وہ اب متوازی ملک گیر تعلیمی نظام رائج کرنے کے پروگرام ترتیب دے رہے ہیں اور سرکاری نظام تعلیم اور سرکاری تعلیمی پالیسی کو ناکام کرنے کے در پے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کل کلاں یہ پرائیوٹ ادارے ملک میں اس قدر زیادہ موثر اور فعال ہو جائیں کہ سرکاری سکولوں میں پڑھنے کے لئے کوئی بچہ تیار نہ ہو اور یہ پرائیوٹ ادارے اپنی مرضی کی تعلیمی پالیسی کے ساتھ پوری قوم کو خود پڑھانا شروع کر دیں۔ اس قدر خوفناک صورتحال کے پیدا ہونے سے قبل محکمہ تعلیم اور خاص طور پر حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ جب کوئی نجی تعلیمی ادارہ قوم کے بچوں کو تعلیم دے گا تو قوم و ملک کے اخلاق و کردار کو بنانے بگاڑنے میں وہ ہی موثر ہو گا۔ حکومت اور ریاست اس ضمن میں بے بس اور خاموش تماشائی بن جائیں گے اور اگلی نسل وہی کرے گی جیسی اس نے تربیت پائی ہو گی۔ اور نجی تعلیمی ادارے جیسے چاہیں گے قوم کی تقدیر لکھیں گے۔ آج صرف چند ہزار دینی مدارس کی تعلیم اور اس کے نتائج پوری قوم بھگت رہی ہے وجہ صرف یہی ہے کہ ان مدارس کا اپنا نصاب ِ تعلیم ہے جو کہ اپنے طالب علم کو ایک فرقہ کا کاربند بنا دیتا ہے لیکن اسے وسیع تر قومی دھارے میں شامل ہونے سے اجتناب کرنے کی ترتیب دے دیتا ہے جس سے معاشرہ یکسر دو گروہوں میں منقسم ہو گیا ہے۔
اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ملک میں تین چار یا پانچ ملکی سطح کے نجی تعلیم کے ادارے اپنے علیحدہ علیحدہ نصابوں کے ساتھ بچوں کو پڑھائیں گے تو ملک ذہنی اور فکری طور پر کتنے طبقات فکر میں تقسیم ہو جائے گا۔ اللہ نہ کرے ایسے حالات پیدا ہوں ایسے حالات کے پیدا ہونے سے پہلے ہی حکمرانوں کوملک میں ایسا تعلیمی نظام نافذ کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے جس میں یکساں نصاب تعلیم ہو۔ ہر سطح پر سرکاری ادارے تعلیم دینے کے اہل اور پابند ہوں۔ پرائیوٹ تعلیمی ادارے بھی سرکاری نصاب تعلیم کے پابند ہوں اور ایک مقررہ حد سے زیادہ پرائیوٹ تعلیمی ادارے قائم نہ ہو سکیں۔ پرائیوٹ ادارے سرکاری سکولوں کے مطابق فیسیں اور دیگر اخراجات وصول کرنے کے پابند ہوں۔ اور آہستہ آہستہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا وجود ختم کر کے صرف سرکاری اداروں سے تعلیم کا حصول ممکن رہ جانے والے اقدامات کئے جائیں ورنہ ایک دن محکمہ تعلیم بھی پرائیوٹیائز کرنا پڑے گا شاید ایسا کرنے میں بھی حکمرانوں کو کوئی تامل نہ ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button