ماں کی گود اور عبدالستار ایدھی!!!
سکول میں جانے کے دنوں میں مجھے میری ماں دو آنے دیا کرتی تھی ایک میرے لیے اور ایک غریب بچوں کے لیے،واپسی پر استفسار کیا جاتا کہ کہاں استعمال کیا کبھی کبھار دونے آنے اپنے اوپر استعمال کر لینے کے بعد سرزنش ہوتی اور وہ جملہ دھراتیں ” کہ تم ابھی سے غریبوں کا حق کھانے والے بن گئے “ یہ الفاظ عبدالستار ایدھی ؒ کے ہیں جب وہ اپنے بچپن کی بات بتا رہے تھے۔یہ ہے تربیت جو ایک ماں اپنی اولاد کی کر سکتی ہے عبدالستار ایدھی کے نام اور کامیابیوںکے پیچھے اس ماں کی تربیت تھی جس کو کسی بھی غریب انسان کی مددکرنا اچھا لگتا تھا۔
سات دہائیوں پر مشتمل عبدالستار ایدھی کی کہانیاں بچے بچے کو یاد ہو چکی ہیں اور ملک بھر میں پھیلے ہوئے ایدھی سنٹر ان کہانیوں کی گواہی دے رہے ہیں۔ نہ گاڑی، نہ بینک بیلنس، نہ ستائش، نہ خواہشیں، کیسا انسان تھا جو مثال بنا ہمارے لئے۔ انہوں نے جمہوریت کی خاطر آلہ کار نہ بننے کا اس وقت فیصلہ کیا جب بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ایک سازش تیار کی گئی۔ بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنے کی اس سازش میں ان کے سب سے بڑے حریف اور اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف شامل نہیں تھے۔ بقول عبدالستار ایدھی مرحوم جنرل حمید گل نے ایک منصوبہ بنایا تھا جس میں بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے الگ کرکے عبدالستار ایدھی کو صدر اور عمران خان کو بھی اقتدار میں شامل کرنا تھا۔ یہ منصوبہ ایک ریٹائرڈ جرنیل کا بنایا ہوا تھا اور یہ کس طرح روبہ عمل آنا تھا اس کی مکمل تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں مگر اس سازش کے لئے عبدالستار ایدھی کا نام اس لئے چنا گیا کہ ان کی ساکھ کو کیش کرا کر انقلاب برپا کیا جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی کے حالات انتہائی دگر گوں تھے۔ قتل و غارت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ سندھ حکومت برائے نام تھی۔ اس سازش کا مہرہ بننے کی بجائے عبدالستار ایدھی دسمبر1994ءمیں اپنی جان بچاکر برطانیہ چلے گئے۔ منصوبہ سازوں نے اس کا اہتمام وہاں بھی کر رکھا تھا۔ جیسے ہی عبدالستار ایدھی لندن پہنچے، بی بی سی اور وائس آف امریکہ کے رپورٹر ایئر پورٹ پر ایدھی کے استقبال کے لئے پہلے سے موجود تھے اور وہ اس سازش کو تلاش کر رہے تھے جو عبدالستار ایدھی کے ملک چھوڑنے کے پیچھے تھی کیونکہ کپتان کو اس سارے کھیل کا پتا تھا۔ ایدھی کے لندن جانے سے چند ماہ پہلے عمران خان نے عبدالستار ایدھی سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے ملاقات میں واضح تو نہیں بتایا تھا کہ وہ کس کھیل کا حصہ ہیں البتہ انہوں نے عبدالستار ایدھی کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے یہ کہا کہ سماجی کارکنوں پرمشتمل ایک پریشر گروپ بنانا چاہیے۔ اصل بات کچھ اور تھی عمران خان کے لئے خفیہ طور پر راستے بنائے جا رہے تھے جبکہ عبدالستار ایدھی کو تصویر کا کوئی اور رخ دکھایا جا رہا تھامگر عبدالستار ایدھی جو ایک جہان دیدہ اور سمجھ دار آدمی تھے، انہوں نے دوٹوک الفاظ میں اس وقت ہی کہہ دیا تھا کہ خفیہ ایجنسیوں، ریٹائرڈ فوجیوں، عمران خان اور کچھ شخصیات پر مشتمل پریشر گروپ بنا کر وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت ہٹانے کی سازش ہو رہی ہے اور انہوں نے پریشر گروپ کی سازشوں کی وجہ سے ہی پاکستان کو چھوڑا ہے۔ حقیقت میں عمران خان کا چہرہ عبدالستار ایدھی نے دکھایا کہ وہ اقتدار کی بھوک میں کس حد تک اور کن قوتوں سے مل کر اعلیٰ عہدے پر پہنچنا چاہتے تھے۔ کیونکہ اس سازش میں عبدالستار ایدھی شامل نہیں ہوئے تھے جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کی خواہشیں مکمل نہ ہو سکیں۔ اس وقت کے صدر پاکستان فاروق لغاری نے اس کا نوٹس لیا اور عبدالستار ایدھی کو فوری طور پر پاکستان لانے کی ہدایت کی۔ عمران خان ان دنوں نئے نئے سیاست میں آنے والے تھے۔ عبدالستار ایدھی حقیقی معنوں میں اقتدار کے لئے کسی قسم کی خواہش نہیں رکھتے تھے حتیٰ کہ انہوں نے اپنے 70سالہ دور میں کبھی کسی ایوارڈ یا مراعات کی خواہش نہیں کی۔ عمران خان نے عبدالستار ایدھی کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ کیونکہ خود عمران خان یہ کہہ رہے تھے کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں مگر یہ بات دو سال کے اندر ہی کھل گئی کہ ان کے اس وقت بھی سیاسی عزائم تھے۔ 1996ءمیں انہوں نے تحریک انصاف کے نام سے ایک پارٹی بنا لی جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ پاکستان کی سیاست میں اونچا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عبدالستار ایدھی جمہوریت سے محبت کرنے والے حقیقی انسان تھے اور ان کو اندازہ تھا کہ ان کو آگے لا کر جمہوریت اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ہٹایا جا رہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے خود کو اس سارے معاملے سے الگ کر لیا جس کا حمید گل اور عمران خان کو شدید افسوس ہوا کہ ان کا بنا بنایا کھیل اس لئے ختم ہو گیا کہ عبدالستار ایدھی نے لندن سے جو بھی بیانات جاری کئے وہ سارے کے سارے بے نظیر بھٹو کی حمایت اور ان کی حکومت کو سہارا دینے کا باعث بنے۔ اس کے بعد بھی عبدالستار ایدھی نے اپنی موت تک کسی جگہ بھی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ وہ اقتدار میں آکر ہی عوام کی خدمت کر سکتے ہیں بلکہ سماجی سطح پر انہوں نے جو کام شروع کر رکھا تھا اسی کو اپنی شناخت بنایا۔ آج اس عظیم ہستی کو اتنا بڑا اعزاز حاصل ہوا کہ قائداعظم اور ضیاءالحق کے بعد ان کے جنازے کو جو عزت ملی وہ کسی سیاستدان کے حصے میں نہیں آئی۔ وہ ایدھی ویلج ہوم میں اپنی قبر سے بھی عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ انہوں نے جاتے جاتے اپنی آنکھوں کو بھی ضرورت مندوں کو دے دی تاکہ وہ عبدالستار ایدھی کی آنکھ سے دنیا کو دیکھ سکیں۔ عبدالستار ایدھی کا کردار، ان کی زندگی، ان کا کام بولتا رہے گا۔ وہ پاکستان کے ایسے سیاستدانوں کے لئے بھی مثال ہیں جو محض دکھاوے کے لئے اور اپنی سیاست چمکانے کے لئے سیاست کرتے ہیں۔
عمران خان عین اس دن لندن روانہ ہو گئے جب عبدالستار ایدھی کا جنازہ نیشنل سٹیڈیم کراچی میں پڑھایا جا رہا تھا۔ کپتان کے ایک روایتی بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عبدالستار ایدھی کے بارے میں ماضی کی بات نہیں بھولے اور جو لوگ عمران خان کا سماجی کارکن کی حیثیت سے عبدالستار ایدھی سے موازنہ کرتے ہیں، ان کے لئے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ عبدالستار ایدھی کی زندگی کا اصل مقصد صرف اور صرف انسانیت اور انسانیت کی خدمت تھا۔ ان کی ذاتی زندگی میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں تھا۔ خدمت خلق کرنے والے کچھ ایسے بھی سیاستدان ہیں جو دن رات یہ ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے کینسر ہسپتال بنایا اور اس ہسپتال کو سیاسی پروپیگنڈے کے طور پر ہمیشہ آگے رکھا جاتا ہے۔ عبدالستار ایدھی نے ایک ایسا شفاف مالی نظام قائم کیا تھا کہ اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھ سکتی جبکہ عمران خان پر انگلیاں اٹھانے والے بہت ہیں۔عبدالستار ایدھی درویش اور فقیر انسان تھے۔ وہ جہاں کھڑے ہو جاتے، لوگ عقیدت میں کھڑے ہو جاتے۔ وہ لوگوں کو دعائیں دیتے تھے اور دھمکیاں دینا ان کی زندگی میں شامل نہیں تھا۔ وہ ملک کے حقیقی خیر خواہ تھے۔ میں یہاں حکومت وقت اور ارباب اختیار کو بھی یہ بتانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اگر ایدھی صاحب چاہتے تو علاج کے لیے بیرون ملک جا سکتے تھے مگر انہوں نے اپنی سرزمین پاک کو ہی چنا اور اپنا علاج وہیں کروانا پسند کیا جہاں ایک غریب پاکستانی کا ہو رہا ہے تو کیا ہمارے وزیراعظم اور ان کے رفقاءاپنا علاج پاکستان میں نہیں کروا سکتے ،ایک ایدھی اگر ہزاروں لاکھوں افراد کی کفالت کر سکتا ہے،تو حکومت وقت کے پاس تو تمام وسائل موجود ہیں حکومت ایسے ہسپتال کیوں نہیں بناسکتی جہاں لوگوں کا علاج کیا جا سکے لوگوں کو چھوڑو بھائی خدارا اپنے لیے ہی ایک ہسپتال بنا لو جہاں تم علاج کروا سکو۔
اگر قول و فعل کا یہ تضاد سیاستدانوں میں ختم ہو جائے تو زندگی بہت آسان لگتی ہے۔ عبدالستار ایدھی کی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ سیاستدانوں کے لئے مثال ہے۔ کیا بات ہے کہ ہر کوئی شخص عبدالستار ایدھی کو اونچا مقام دینا چاہتا ہے۔ نجم سیٹھی صاحب نے تو قذافی سٹیڈیم کا نام عبدالستار ایدھی سٹیڈیم رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ تجویز اچھی ہے اور اسے کسی حد تک پذیرائی بھی ملنی چاہیے کیونکہ قذافی تو تاریخ کے کوڑے دان میں جا چکا ہے۔ ان کی جگہ عبدالستار ایدھی ایک روشن ستارے کی جگہ چمکتا اور دمکتا رہے گا۔