Tayyab Mumtaz

بے چارے صحافی اور میڈیا ورکرز!!!

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان کے کسی میڈیا ہاﺅس کونشانہ بنایاگیا ہے ۔ ایسے واقعات اس سے پہلے کئی بار رونما ہوچکے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق صحافیوں کا قتل اور میڈیا کونشانہ بنانے کے خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے ۔ صرف شام ، عراق اور مصر میں میڈیا پر حملوں کے معاملے میں پاکستان کی نسبت زیادہ بُرے حالات ہیں ۔ اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں2013ءمیں پانچ صحافیوں کو قتل کیاگیا تھا ۔ جبکہ 2012ءمیں یہ تعداد سات تھی ۔میڈیا ورکرز اور جرنلسٹوں پر حملوں کا سلسلہ خاصا پرانا ہے ۔ اس کا باقاعدہ آغاز غالباً دسمبر1994ءکو ہوا جب ہفت روزة تکبیر کے ایڈیٹر صلاح الدین کو ان کے دفتر کے باہر قتل کردیاگیا تھا ۔ اس کے دو روز بعد اردو روزنامہ پرچم کے بزنس منیجر محمد صمدانی وارثی کو گولی مار دی گئی تھی ۔ فروری2002ءامریکی صحافی ڈینیئل پرل کو گڈاپ کراچی میں پہلے اغوا کیا اور پھر قتل کردیا گیا ۔ جنوری2003ءمیں فری لانس جرنلسٹ فضل وہاب کو گولی مار کر قتل کردیاگیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔اسی طرح 2015میں لاہور کی ایک صحافی زینت شہزادی کو دن دیہاڑے اغوا کیا گیا جس کا آج تک کوئی پتہ نہیں۔اور تو اور میڈیا ورکرز اور صحافیوں کو خبر بنانے اور چلانے کی سزا ٹیلی فون پر دھمکیوں اور ان کی فیملیز کو حراساں کر کے دی جاتی رہتی ہے۔ابھی پچھلے ہی مہینے ایکسپریس میڈیا گروپ پر ہونے والے حملے میں اس کے تین کارکن جاں بحق ہو گئے تھے ۔ تاہم اس کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی تھی ۔ اس سے چند ماہ پہلے لاہور میں سٹی 42کے دفتر پر فائرنگ کی گئی ۔ گزشتہ سال دسمبر میں لاہور ہی میں دن نیوز کے گلبرگ میں واقع دفتر کو نشانہ بنایاگیا تھا ۔ ایکسپریس میڈیا گروپ اور جنگ گروپ کو اس سے بھی پہلے کئی بار نشانہ بنایا جاچکا ہے ۔ جب پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن چینل شروع نہیں ہوئے تھے تو اخبارات کے دفاتر میں توڑ پھور کی جاتی تھی اور اکثر اخبار کی کاپیاں جلا دی جاتی تھیں، لیکن جب سے نجی ٹیلی ویژن شروع ہوئے ہیں انہیں بھی نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اگست2014ءمیں تحریک انصاف اور پا کستان عوامی تحریک کی جانب سے الیکشن2013ءمیں ہونے والی دھاندلی کے خلاف مارچ شروع کیاگیا اور پھر اسلام آباد میں دھرنا دیاگیا تو اس دوران پی ٹی وی کی عمارت پر منظم حملہ کیاگیا تھا بلکہ نجی ٹیلی ویژن چینلز کی ڈی ایس این جیز کو بھی نشانہ بنایاگیا تھا اور وہ منظر تو اب تک آنکھوں سے محو ہی نہیں ہو پارہا کہ لاہور میں ایک ریلی کی کوریج کرتے ہوئے جیو نیوز کی اینکر ثنا مرزا پر پتھر پھینکے گئے تھے اور انہیں ذہنی طور پر اتنا ٹارچر کیاگیا تھا کہ وہ بھرے مجمع میں رو پڑی تھیں اور انتہا پسند تو انہیں نشانہ بناتے ہی رہے ہیں اب سیاسی قوتیں بھی اسی ذیل میں شمار ہونے لگی ہیں ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی قوتیں بھی میڈیا گروپو ںکو نشانہ بناتی ہیں ، اظہار رائے کی آزادی کے تناظر میں جن کے مفادات پر زک پڑتی ہے ۔یہاں واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بہت سے صحافی ایسے بھی ہیں جو بیچارے ڈرتے ہوئے ایسے واقعات کا ذکر کرنا بھی اپنی موت سمجھتے ہیں۔لاہور ہو یا کراچی، ہو یا اسلام آباد کہیں بھی کوئی محفوظ نہیں ہے۔
میڈیا ہاﺅسز اور جرنلسٹوں پر حملوں کا معاملہ اب ایک عالمی مظہر ہے ۔ گزشتہ سال پوری دنیا میں قتل یا ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد73تھی ۔ ان میں سے دو کا تعلق پاکستان سے تھا۔ 2014ءمیں یہ تعداد61تھی اور ان میں سے تین پاکستانی صحافی تھے ۔ اور2016ءکے آٹھ مہینوں میں اب تک27صحافی اپنی زندگیو ںسے محروم ہوچکے ہیں ۔ اور اگلے چار ماہ میں کیا ہونے والا ہے ، کوئی نہیں جانتا ۔ یہ یاد رہے کہ حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ صحافی شام میں ہلاک ہوئے ، جس کی وجہ وہاں کے جنگ زدہ حالات ہیں ۔بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ گزشتہ25برسوں کے دوران دنیا بھر میں کم از کم2297صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ہلاک کیا جاچکا ہے ۔ تنظیم کے مطابق اب تک کسی ایک سال کے دوران سب سے زیادہ صحافیوں کو2006ءمیں قتل کیاگیا ۔ ان کی تعداد155تھی ۔ ایک رپورٹ میں بتایاگیا ہے ہے کہ میڈیا ہاﺅسز کونشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ صحافیو ںکی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے ، انہیں بم دھماکوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ انہیں کراس فائرنگ کانشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اور انہیں اغوا کرکے ٹارچر سے ہلاک کیا جاتا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان سارے کیسز میں سے بہت کم کی تحقیقات کی گئی یا مجرموں تک پہنچ کر انہیں عبرت کا نشان بنایاگیا ۔ یہ وجہ ہے کہ اب میڈیا ہاﺅسز پر ماضی کی نسبت زیادہ حملے ہونے لگے ہیں ، چنانچہ یہ بات طے ہے کہ جب تک حکومت کی جانب سے میڈیا ہاﺅسز کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا سچ بات کہنا ان کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔مگراس بات کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ جب حکومت اور اس میں موجود افراداور ایجنسیز بھی صحافیوں کو ٹارچر کرتی ہوں تو کہاں سے انصاف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایم کیوایم کی پاکستان میں موجود قیادت نے منگل کے روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پیر کے روز کراچی میں جو کچھ ہوا وہ اس سے مکمل لا تعلقی کا اعلان کرتی ہے ، جس نے ایم کو ایم کا کارکن بن کر یا ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے تشدد کا راستہ اختیارکیا، اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ، اب ایم کیوا یم کے پلیٹ فارم سے یہ عمل نہیں دہرایا جائے گا اور یہ کہ ایم کیو ایم کے فیصلے پاکستان میں ہوں گے ۔ ایم کیوایم کے سینئر رہنما اور رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کی ان باتوں اور یقین دہانیوں سے چلیں ایم کیو ایم کا معاملہ یا مسئلہ کسی حد تک حل ہو جائے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے بعد میڈیا ہاﺅسز کوٹارگٹ نہیں کیا جائے گا ۔ یہ خطرہ پہلے کی طرح اب بھی موجود رہے گا ، کل کو کسی اور سیاسی یا مذہبی گروہ کوکسی چینل کی کوئی بات ناگوار گزری تو ایک بار پھر ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوگا ۔ اس لیے میڈیا ہاﺅسز کی سکیورٹی کے لیے فول پروف انتظامات کی ضرورت ہے ، چاہے یہ خود کریں یا حکومت اس کا انتظام کرے ۔ دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ معاشرے کو معتدل بنایا جائے تاکہ وہ اپنے اندر حق بات کوبرداشت کرنے کی طاقت پیدا کرے ، تاہم ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی جس حد تک بڑھ چکی ہے لگتا نہیں کہ مستقبل قریب میں اس کے کچھ امکانات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ ان حالات میں میڈیا ہا ﺅسز ، صحافیوں اور میڈیا میں کام کرنے والے دوسرے کارکنوں کی سکیورٹی ہی اس مسئلے کا واحد حل رہ جاتی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button