بھارت کی چالیں….باخبررہنے کی ضرورت !!!
ایک خبر کے مطابق بھارت نے پاکستان سے رابطہ کرکے بتایا کہ وہ اوڑی حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا ۔ اس سلسلے میں ایک موقر اورباثر سفارتی ذریعے کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے ایک سینئر مشیر نے اسلام آباد میں ایک اہم شخصیت سے رابطہ کرکے وزیراعظم نواز شریف تک پیغام پہنچایا ہے کہ بھارت کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں چاہتا ۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اس کا واضح مطلب ہے بھارت نے سارک کانفرنس منسوخ کرکے اور پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کا ڈھونگ رچا کر دیکھ لیا ہے کہ وہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ہماری مسلح افواج اس کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں حکومت، جلہ سیاسی رہنماﺅں اور ان کی جماعتوں سمیت پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر ان کے پیچھے کھڑی ہے ۔ نیز سارک کانفرنس کا مجوزة اجلاس جو آئندہ ماہ نومبر میں اسلام آباد میں ہونا تھا منسوخ کراکے بھارت نے اگر یہ سوچا تھا کہ پاکستان کو سفارتی نقصان پہنچائے گا تو اس سے بھی ہمارا کچھ نہیں بگڑا ۔ سارک کانفرنس کے التواءسے جتنا کچھ نقصان پاکستان کو پہنچاہے اتنا ہی بھارت سمیت دیگر رکن ممالک کو بھی پہنچا ہے ۔ یہ آج نہیں تو کل دوبارہ ہوگی لیکن اس موقع پر ہم اپنی حکومت،مسلح افواج اور دوسرے اداروں کوباور کرانا چاہتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے ملنے والی کسی یقین دہانی پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے ۔ ا کے حکمرانوں کے ذہنوں پر آزادی کشمیر کی زبردست جدوجہد کا بدلہ پاکستان سے لینے کا جنوں اس حد تک چھایا ہوا ہے کہ نریندر مودی سرکر اور کچھ نہیں تو بھارتی عوام کے اندر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے کی خاطر لائن آف کنٹرول یا بین الاقوامی سرحد پرکسی وقت بھی کوئی شرارت کرسکتی ہے ۔ لہٰذا ہمیں ہر وقت باخبر ہوشیار اورچوکنا رہنا چاہیے۔ بھارت کی زبان اگر ذرہ برابر قابل اعتبار ہوتی تو مسئلہ کشمیر کب کا حل ہوچکا ہوتا جس کا وعدہ ان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے سلامتی کونسل میں کھڑے ہوکر بڑے زور وشور کے سا تھ کیا تھا ۔ بھارت اپنے وعدوں سے جلد منحرف ہوجانے کا ٹریک ریکارڈ رکھتا ہے لہٰذا امید کرنی چاہیے کہ پاکستان کی حکومت، مسلح افواج کی قیادت اور دیگر ارباب حل وعقد بھارت کی طرح چال پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور اس کے مضمرات سمھ کر اس کے ہتھکنڈوں کا خواہ وہ سفارتی ہوں یا جنگی صحیح اور بروقت جواب دینے کے لیے ہر دم تیار ہیں ۔ بھارت اگر امن چاہتا ہے تو ہم بھی اس کے خواہش مند ہیں لیکن اگر امن کی آڑ میں دھوکا دہی کا کوئی کھیل کھیلنا چاہتا ہے تو پاکستان بھی اس کی چالوں کوبے اثر کرناجانتا ہے ۔
جمعہ کے روز وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سرجیکل سٹرائیک کے بھارتی دعوﺅں کو مسترد کیاگیا جبکہ اس عزم کا بھی بھرپور اظہار کیاگیا کہ دفاع وطن کے لیے قوم کا بچہ بچہ ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہے ۔ اسی حوالے سے قوم کو منتخب نمائندوں اور ان کی جماعتوں کے رہنماﺅں کو اعتماد میں لینے کے لیے وزیراعظم نے کل برز سوموار پارلیمانی جماعتوں کے رہنماﺅں کا اجلاس طلب کیا ہے جن کے سامنے وہ پوری صورت حال رکھیں گے اور مشاورت بھی طلب کریںگے ۔ اسی طرح ملک کے اندرونی دفاع کو مضبوط کرنے کی خاطر نیشنل ایکشن پلان پر زیادہ بھرپور اور موثر طریقے سے عمل درآمد کرنے کے لیے تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ سمیت ایک اہم اجلاس منعقد کیا جارہا ہے مزید برآں یہ کہ آئندہ بدھ کے روز پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس منعقد کرنے کی خاطر صدر پاکستان کو سمری بھیج دی گئی ہے اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جلد جاری کردیا جائے گا ۔ اس طرح قومی نمائندوں کے یہ پے درپے اجلاس نہ صرف ملک کے عوام کے اند رمکمل یکجہتی کا اظہار ہو ںگے بلکہ بھارت کو بھی واضح الفاظ میں پیغام مل جائے گا کہ پاکستان کے فعال اور متحرک جمہوری نظام کے ذریعے ہم اپنی بہادر افوا ج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ اس موقع پر ہم یہ بھی باور کرادینا چاہتے ہیں کہ اگر یہ خبر واقعی درست ہے کہ بھارت نے سبق سیکھ لیا ہے اور مزید جنگی کارروائیاں نہیں کرنا چاہتا تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے بہادر عوام نے اپنی آزاد کی خاطر جو عظیم الشان تحریک کھڑی کررکھی ہے اور اس کی راہ میں لازوال قربانیاں دے رہے ہیں اس میں کچھ فرق آجائے گا یا پاکستان کسی بھی پہلو سے کشمیری عوام کے ساتھ اپن اصولی اور اخلاقی حمایت کے اظہار میں کوئی کمی پیدا کرے گا ۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت پاکتان کشمیر کے تنازع میں باقاعدہ فریق کا درجہ رکھتا ہے ۔ اس نے انہیں عالمی سطح پر بھرپور سفارتی اور اخلاقی حمایت مہیا کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے ۔ پاکستان ہر طرح کے چیلنجوں اور مشکلات سے نبردآزما ہوتے ہوئے اپنا یہ قومی اور اخلاقی فریضہ سرانجام دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا تاکہ آنکہ مجبور ومقہور کشمیریوں پر آزادی کا سورج طلوع ہو اور وہ بھی اس کی خوشگوار فضا میں سانس لینے کے قابل ہوسکیں ۔