Tayyab Mumtaz

اسموک اور اسموگ عوام کیلئے وبال جان

حال ہی میں پاکستان کے شہر لاہور میں ایک عجیب سا موسم دیکھنے میں آیا ہے، شہری جس دھند کو سردیوں کے موسم کا کہرا سمجھ رہے تھے، وہ درحقیقت کچھ اور ہی تھا۔ کچھ نے سمجھا کہ یہ شاید دھواں ہے جو کچھ دیر بعد ختم ہوجائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ محکمہ موسمیات اور طب کے ماہرین نے یہ خوفناک بات بتائی کہ یہ دھند اسموک (دھواں) نہیں بلکہ اسموگ (مصنوعی دھند) ہے، جس میں گاڑیوں اور صنعتوں کے دھوئیں سمیت ہر قسم کی فضائی آلودگی شامل ہے۔یہ مصنوعی دھند یعنی اسموگ کے سبب حد نگاہ دو میٹر تک محدود ہوگئی، جس کے باعث موٹر وے پر ٹریفک کو روکنا پڑا۔ ڈاکٹر حضرات کا کہنا ہے کہ اس سے آنکھوں اور سانس کی بیماریاں بڑھتی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس کا سبب صنعتوں اور گاڑیوں کے چلنے سے پیدا ہونے والا دھواں اور آلودگی ہے، نیز بھارت میں فصلوں کے جلائے جانے سے پیدا ہونے والا دھواں بھی ایک سبب ہے۔ لاہور شہر میں یہ صورتحال ایک دم نہیں ہوگئی، بلکہ گزشتہ پانچ برسوں سے جاری ہے اور آلودگی میں مسلسل اضافے کے باعث اسموگ کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔اس خبر کے بعد مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی اس پر سونے پر سہاگہ کے مصداق ہائیکورٹ کے جج صاحب نے ایکشن بھی لے لیا ہے مگر ان کو شاید یہ نہیں پتہ کہ چند دن کی گرما گرمی کے بعد وہی سب کچھ ہوگا جو پہلے ہوتا آیا ہے بندہ ناچیز اور کچھ دوستوں نے اس سارے معاملے پر بڑی تگ ودو کی تھی کیا ہوا چند دن یہ فیکٹریاں بند رہنے کے بعد دوبارہ کھل گئیں۔اگر ہمارے قانون بنانے والے ہی ان فیکٹریوں کو چلاتے ہیں اور ان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں تو ان کو کون اور کتنی دیر تک بند کروا سکتا ہے ۔ اس سارے معاملے میں جناب وزیراعظم صاحب کو بھی خواب خرگوش سے باہر نکلنا پڑا اور انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سخت احکامات دے ڈالے کہ ان فیکٹری مالکان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔ جناب آپ کے بہت سارے ایم این ایز جن میں شیخ روحیل اصغر چیئرمین قائمہ کمیٹی دفاع کی بھی ذاتی فیکٹریاں یہی کچھ ایندھن جلا رہی ہیں مگر کوئی ان کو بند نہیں کروا سکتا اور نہ ہی کوئی سزا دلوا سکتا ہے۔مجھے اس وقت ایک دانشور کا لیکچر یاد آرہا ہے جس میں انھوں نے بڑے خوبصورت انداز میں اس دنیا والوں کی اپنے ہاتھوں خودکشی کا سبب پیدا کرنے پر روشنی ڈالی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہم ان لوگوں کی بڑی عزت کرتے ہیں جن کے پاس بڑا پیسہ ہو اور وہ پرآسائش یا لگژری زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے پاس ایک نہیں کئی گاڑیاں ہو، جن میں وہ خوب گھومیں پھریں، گھر میں ان کے ایئرکنڈیشن، ایل ای ڈی، فریج، ٹیبلٹ سمیت تمام جدید سہولیات ہوں۔
ہم سادہ زندگی نہیں گزارتے، سادہ انسان کو پسند نہیں کرتے، ان کی عزت نہیں کرتے۔ شادی بیاہ یا کوئی تقریب ہو تو خوب خریداری کرتے ہیں، کوئی جوڑا دوبارہ نہیں پہنتے، جوتے چپلیں، سینڈلیں بھی نئی خریدتے ہیں، لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ اس سب کا انجام کیا ہوگا؟ دنیا کے اگر دس کروڑ انسان بھی کسی تقریب میں شرکت کے لیے ایک جوڑا خریدتے ہیں اور اس پر پانچ گز کپڑا لگتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کپڑے کی صنعتوں میں پچاس کروڑ گز کپڑا تیار ہوگا اور جب تک یہ پچاس کروڑ گز کپڑا تیار ہوگا مشینیں چلتی رہیں گی اور ان سے آلودگی بھی بڑھتی رہے گی۔
ایک انسان کی فضول خرچی یا بلاضرورت خرچ ایک انسان کا نہیں رہتا، دنیا کے اربوں انسانوں کی ایک چھوٹی سی بلاضرورت خریداری کس قدر آلودگی کا باعث بنتی ہے، عام انسان کو اس کا اندازہ نہیں۔ ہم گاڑی رکھنے کے باوجود نئے سے نئے ماڈل کی گاڑی خریدنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ کیا ہمیں معلوم ہے کہ ایک کار کی تیاری میں ہزاروں لیٹر پینے کا صاف پانی استعمال ہوتا ہے اور پھر برسوں تک ناقابل استعمال ہوجاتا ہے، ایک کار کی تیاری میں کس قدر وقت لگتا ہے، کس قدر مشین استعمال ہوتی ہے اور پھر اس سے جو صنعت چلتی ہے اس سے آلودگی کس قدر پھیلتی ہے؟ ویسے بھی پاکستان میں تو ہر صنعت میں ایندھن ٹائر جلا کر لیا جا رہا ہے ۔ہم اس پر غور نہیں کرتے اور ہر وقت گاڑی بدلنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ اسی طرح گاڑی کا غلط استعمال کرتے ہیں، یعنی ایک تو ضرورت سے زیادہ بڑی اور لگژری گاڑی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، دوسرے چلانے میں احتیاط نہیں کرتے، کبھی انجن چلا کر چھوڑ دیتے ہیں، کبھی چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بلاوجہ استعمال کرتے ہیں۔
ہمارے ان دانشور نے ایک اور بڑی اہم بات بتائی وہ یہ کہ جب تک صنعتی انقلاب نہیں آیا تھا، انسان اپنی ضرورت کی ہر چیز رکھتا تھا، وہ کسی کا محتاج نہ تھا، لیکن اس انقلاب کے بعد ہر شے مشین سے تیار ہونے لگی، جس سے کم وقت میں زیادہ اشیاءتیار ہونے لگیں، یوں اس عمل میں سرمایہ لگانے والوں کو ضرورت محسوس ہوئی کہ جو اشیاءمشینوں سے تیار ہوئی ہیں، ان کو فروخت کیسے کیا جائے؟ یہ بہت بڑا مسئلہ تھا، کیوںکہ انسان کے پاس اس کی ضرورت کی تو تمام ہی اشیاءموجود تھیں، پھر بھلا وہ کسی ضرورت کے بغیر کوئی شے کیوں خریدے؟ یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا کہ کسی شخص سے پیسے لے کر اس کو وہ چیز دے دی جائے جس کی اس کو ضرورت ہی نہیں۔ چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے مارکیٹنگ اور اشتہارات بنانے والوں کی خدمات حاصل کی گئیں، جنھوں نے لوگوں تک ان مشینی چیزوں کا پیغام اس انداز میں پیش کیا کہ لوگ ان چیزوں کو خریدنے پر مجبور ہوگئے۔ رفتہ رفتہ یہ عمل اس قدر پرکشش بنادیا گیا کہ لوگوں کی کثیر تعداد اشتہارات میں پیش کی گئی اشیاءکو یہ سمجھنے لگے کہ وہ واقعی ان کی ضرورت ہے۔
یوں بظاہر تو اس میں کوئی برائی نہیں تھی لیکن ایک خرابی یہ پیدا ہوئی کہ لوگ اشتہارات کو دیکھ کر خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہنے لگے اور دن رات زیادہ سے زیادہ کمانے کی دھن میں لگ گئے تاکہ نئی سے نئی اشیاءخرید سکیں، یوں صبر، شکر اور قناعت کی خوبی لوگوں کی زندگی سے جاتی رہی اور ایک بہت بڑی خرابی یہ بھی ہوئی کہ صنعتیں دن رات ترقی کرتی رہیں، یعنی وہ تعداد میں بھی بڑھتی رہیں اور ان میں دن رات مال بھی تیار ہوتا رہا۔ اس طرح ان صنعتوں کے چلنے سے ایک جانب آلودگی بڑھتی رہی اور دوسری جانب ان کی تیار کردہ بیشتر اشیاءکے استعمال سے بھی آلودگی بڑھتی رہی۔ سائنسدانوں نے بظاہر اس عمل میں زندگی کو پرآسائش اور آسان تو بنا دیا تھا مگر خود ان پر 1980کی دہائی میں انکشاف ہوا کہ جو ایجادات کی گئی تھیں ان کے اس عمل سے فضا آلودہ ہوچکی ہے اور اوزون کی سطح کو بھی نقصان پہنچ چکا ہے۔ فریج اور ایئرکنڈیشنڈ کی ایجادات سے گرم موسم میں ٹھنڈی ہوا اور پانی تو لوگوں کو ضرور مل گیا مگر ان مشینری کے استعمال سے نکلنے والی گرین گیسسز نے کرہ¿ ارض کی اوزون کی سطح میں سوراخ کردیا اور دنیا بھر میں گاڑیوں سمیت تقریباً ہر قسم کی مشینری اورصنعتوں کے چلنے سے اوزون کی سطح اور بھی متاثر ہو رہی ہے۔
اب اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی تمام ملکوں پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ آلودگی پیدا کرنے کے اس عمل کو اپنے اپنے طور پر کم کرنے کی کوشش کریں، مگر اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں ہونے والے ان فیصلوں پر عمل کرنے کے لیے نہ تو کوئی ملک تیار ہے نہ ہی عوام کو اتنا شعور ہے کہ وہ خود اس آلودگی میں کمی کے لیے کوئی عملی قدم اٹھائیں۔ شاید اس لیے بھی کہ اس عمل سے لوگوں کو اپنی پر آشائش زندگی کو سادہ بنانا پڑے گا جس کے لیے وہ تیار نہیں۔ اسی طرح سرمایہ دار صنعتوں کے پہیوں کو دن رات چلانا چاہتے ہیں، اس میں کمی نہیں چاہتے کہ اس سے ان کی دولت میں کمی آجائے گی۔ لہذا اب سائنسدان تو آلودگی کم کرنے کے مشورے دے رہے ہیں اور دنیا میں آنے والی تباہی سے آگاہ کر رہے ہیں مگر ان کی سننے والا کوئی نہیں، حتیٰ کہ امریکا میں بھی قانون بنا دیا گیا ہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی سائنسی تحقیق بھی شایع نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ سائنسدانوں کی تحقیق دنیا کے لوگوں کو پیغام دے رہی ہے کہ دنیا کیوں تباہ ہونے جارہی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج ہم اسموگ سے بچنے کے لیے ڈاکٹر کے مشوروں کے مطابق گھر کی کھڑکیاں، دروازے بند کرلیتے ہیں، مگر خود کو کب تک اس طرح قید کرسکیں گے؟ کیونکہ آلودگی میں تو ہم سب مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ آیئے کیوں نہ اپنی زندگی کو سادہ اور آسان بنائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button