من گھڑت خبریا سکیورٹی ،آزادی صحافت پر قدغن
وفاقی وزیر داخلہ نے پھر نئی بات کہہ دی ۔ کہتے ہیں کہ خبر لیک نہیں ہوئی من گھڑت تھی ، ہم نے امریکاسے ر پورٹر کو طلب کرلیا ےہ۔ بات بہت مختصر تھی لیکن جوں جوں آرمی چیف یا نئے آرمی چیف کے تقرر کا وقت قریب آتا جارہا ہے حکومت کے وزراءکے لہجوںمیں بھی تبدیلی آرہی ہے ، وزیر کے بیان میں ان دوجلسوں میں بھی بہت کچھ ہے ، پہلے حصے کا مطلب یہ ہے کہ سکیورٹی لیک ہی نہیں ہوا ۔ اگر خبر سچی ہوتی تو سکیورٹی لیک کہا جاسکتا تھا گویا سکیورٹی اداروں کی برہمی غلط تھی یا غلط فہمی پر مبنی تھی ۔ اب تو وزیر داخلہ نے کہہ دیا ہے کہ لیک تو تب ہوتی جب حقیقت ہوتی ۔ تحقیقات میں سب سامنے آجائے گا ۔ لوگوں نے کھیل بنا رکھا ہے اس کی آڑ میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے والے کوئی اور کام ڈھونڈیں ۔ اس حوالے سے انگریزی اخبار ڈان کا ردعمل خاصا اہمیت کا حامل ہوگا کیوں کہ وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ خبر من گھڑت تھی تو اس کا جواب اخبار کو دینا ہوگا اور الزام لگانے کے بعد ثبوت وزیر داخلہ کو دینا ہوگا ۔ بہر حال دونوں صورتوں میں ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے خود وزیرداخلہ کٹہرے میں آگئے ہیں کہ پہلے سرل المیڈا کا نام ای ایس ایل میں ڈالا گیا پھر اسے نکلوایا گیا اب کہتے ہیں کہ خبر من گھڑت تھی تو وزارت داخلہ کیا کررہی تھی ، من گھڑت خبر پر فوراً اخبار کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی اب سرکار عسکری رہنماﺅں ، کور کمانڈرز اورآئی ایس پی آر سے کیا کہے گی کہ کوئی سکیورٹی لیک نہیں ہوا اور کچھ بھی نہیں ہوا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ وزیر داخلہ بڑے اعتماد سے فرما رہے ہیں کہ اگلے ہفتے متعلقہ رپورٹر کو طلب کیا ہے ، کیا وہ آجائے گا ؟ اب تو اگر خبر درست ہے تو بھی نہیں آئے گا اور اگر خبر من گھڑت ہے تو وہ کیوں آئے گا ۔ اس خبر سے زیادہ حساس اور سنگین معاملہ تو بے نظیر بھٹو کا قتل تھا، میمو گیٹ اسکینڈل تھا ۔ کیا حسین حقانی طلب کرنے سے پاکستان آگئے ؟
وزیر داخلہ ڈونالڈ ٹرمپ سے عافیہ کو تو مانگ نہیں سکتے، سرل کو کیا مانگیں گے ، عافیہ کے بارے میں بیان دیا ہے پاکستانی اخبارات کے لیے اور خوب منطق گھڑی ہے کہ چوں کہ شربت گلہ بے چاری دکھیاری تھی اس لیے انسانی ہمدردی کے نام پر اسے افغانستان کے حوالے کردیا لیکن ریمنڈ ڈیوس کو کیوں حوالے کیا اس حوالے سے خاموشی ہے ۔ ہمارے خیال میں ڈان لیکس کا معاملہ جب زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا کیوں کہ یہ براہ راست آرمی چیف اور کور کمانڈرز کی تشویش کو بے جا قرار دینے کی کوشش ہے ۔ اس حوالے سے کور کمانڈر ، آئی ایس پی آر اور ڈان نیوز کا ردعمل اہمیت کا حامل ہو گا ۔ جہاں تک رپورٹر کو طلب کرنے کا تعلق ہے تو وہ ہمارے وزیر داخلہ یا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے ۔ ہاں اگر وہ طلب کرسکتے ہیں تو عافیہ کو طلب کرلیں جو پاکستان میں تو بے قصور ہے ہی امریکی عدالت بھی اسے قصور وار ثابت نہیں کرسکی ۔ سرل المیڈا پر تو پاک فوج سے متعلق لیکس کرنے کا الزام ہے ۔ اسے امریکا کیسے آنے دے گا ، المیڈا لیکس کے حوالے سے صحافتی تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ صحافی کو اپنا ذریعہ معلومات پوشیدہ رکھنے کا حق ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافی اپنے ذرائع پر بھروسہ کرکے خبر حاصل کرتے ہیں اور یہ ذرائع بھی صحافی کا اعتبار کرتے ہیں ۔ اگر ذریعے کا نام افشا کردیا جائے تو اعتبار اٹھ جائے گا ۔ تاہم یہ صحافی کی بنیادی ذمے داری یہ جاننا ہے کہ اسے جو خبر مل رہی ہے ، وہ کس حد تک درست ہے ۔ ایک اچھا صحافی دیگر ذرائع سے بھی تصدیق کرتا ہے لیکن مذکورہ خبر کے بارے میں تو وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ سرے سے غلط اور جھوٹ ہے ۔ چنانچہ ایسی صورت میں تو معاملہ بدل جاتاہے اور یہ سوچا جاسکتا ہے کہ کسی نے دانستہ ایک غلط خبر لگوائی ، وزیر داخلہ نے سرل لیکس کا ملکی سلامتی سے تعلق مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ لیک تب ہوتی جب اس میں کوئی حقیقت ہوتی گو کہ ابتدا میں حکومت کا موقف کچھ اور تھا اور اس کو بالکل مسترد نہیں کیاگیاتھا ۔ وفاقی وزیر نے تحقیقات پر اعتراض بھی مسترد کردیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ کچھ لوگوں نے معاملے کو کھیل بنایا ہوا ہے ، اس کی آڑ میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے والے اور کوئی کام ڈھونڈیں ۔ سیاست دان حکومت میں ہوں یا حکومت سے باہر سیاسی پچ پر کھیلنا دونوں کا پسندیدہ شغل ہے ۔ کچھ معاملات کو حکومت نے بھی کھیل بنا رکھا ہے ، سرل لیکس کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں ان میں بہر حال وزن ہے ۔ ضعیف العمری سے قطع نظر ریٹائرڈ جسٹس صاحب کا ن لیگ سے تعلق تو محض افواہ نہیں ۔ یہ کھیل حکمرانوں ہی نے کھیلا ہے ، ان اعتراضات سے بچا جاسکتا تھا چودھری نثار کہتے ہیں کہ سرل لیکس کا کوئی تعلق ملکی سلامتی سے نہیں ہے جب کہ فوجی قیادت اسے قومی سلامتی کے منافی قرار دے چکی ہے اور چودھری نثار بلاول زرداری کو بچہ اور غیر سنجیدہ قرار دے رہے ہیں ۔ بلاول کی غیر سنجیدگی تو اس کی عمر کاتقاضا ہے لیکن دوسری طرف تو بڑے پختہ کار ہیں ۔ خبر لیکس کے معاملے میں پارلیمان کو اعتمادمیں لیا جانا چاہیے تھا۔ میں یہاں یہ بات باور کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ صحافتی زبان میں اگر کوئی شخص آف دی ریکارڈ بات بولتا ہے تو اسے خبر نہیں بنایا جا سکتا اور اگر واقعی خبر ہو اور اسے نا چھاپا جائے تو یہ بھی صحافتی زبان میں ”لفافہ“ صحافت کے زمرے میں آتا ہے اب فیصلہ تو کمیشن کو کرنا ہے دیکھو یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔کتنے ہی صحافی ہیں جو سچی خبریں لگانے کی پاداش میں پاکستان سے باہرجانے پر مجبور ہو چکے ہیں اور کچھ عرصہ میں تو کئی صحافیوں کو جا کا نذارانہ بھی پیش کرنا پڑا ہے۔