قاتل دھواں اور ہوائی آلودگی،پاکستان دنیا میں نمبر ون
پاکستان کے شہری علاقوں میں ہوائی آلودگی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اس سے انسانی صحت سمیت معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔اس خدشے کا اظہار عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ “پاکستانی فضاﺅں کی صفائی” نامی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ شہری ہوائی معیار میں بہتری کو ملکی پالیسی ایجنڈے میں ترجیح دی جائے کیونکہ بڑے شہروں میں آلودگی پر قابو پانے کی فوری ضرورت کے شواہد ملنے کے باوجود اس مسئلے پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔صنعتیں لگنے، لوگوں کا شہروں کی جانب رخ کرنے اور گاڑیوں کی ملکیت کے رجحان نے پاکستان میں ہوا کے معیار کو وقت گزرنے کے ساتھ مزید بدترین ہی ہوگی اگر اس حوالے سے مختصر، درمیانی اور طویل المدت اقدامات پر توجہ نہ دی گئی، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اداروں کی ہوا کے معیار سے متعلق ذمہ داری کی تیکنیکی گنجائش کو مزید مضبوط بنایا جانا چاہئے۔
ہوائی آلودگی کے اثرات پر قابو پانے کے لیے پالیسی کے آپشنز کی سفارشات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہوائی آلودگی کے مضر اثرات صحت اور غریب افراد کی ترقی پر مرتب ہورہے ہیں، خاص طور پر شہری علاقوں میں رہائش پذیر35 فیصد پاکستانی اس سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق صرف 2005ءمیں بائیس ہزار سے زائد بالغ افراد شہری ہوائی آلودگی سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوکر ہلاک ہوئے تھے، جبکہ اس کی وجہ سے سالانہ اسی ہزار افراد ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہیں ۔ جن میں آٹھ ہزار شدید کھانسی کے مریض جبکہ پچاس لاکھ سے زائد بچے جن کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں سانس لینے کی تکالیف کے باعث ہسپتالوں میں داخل کئے گئے۔
رپورٹ نے ان اعدادوشمار پر فکرمندی کا اظہار کیا جن کے مطابق جنوبی ایشیاءکے شہری علاقوں میں ہوائی آلودگی سے سب سے زیادہ پاکستان میں ہورہا ہے اور ملک میں اموات اور دیگر حادثات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ سے متعلق قانون پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ اور قومی ماحولیاتی پالیسی میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے اختیارات میں اضافہ تو کیا گیا ہے مگر عملدرآمد کا وجود دور دور تک نظر نہیں آتا۔
کمال کی بات یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار جن کی ذمہ داری عوام کی بہتری کیلئے قانون سازی کرنا ہے وہی سب سے زیادہ قانون شکنی کے مرتکب بھی ہوتے ہیں ۔میں قارئین اور ارباب اختیار کی توجہ شمالی لاہور کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں جہاں غیر قانونی فیکٹریوں کی بھرمار ہے اور خاص طور پران فیکٹریوں میں پرانے ٹائر،گاڑیوں کے استعمال شدہ آئل فلٹرز،پرانا پلاسٹک ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے جہاں پر اس قاتل دھوئیں سے لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔اس غریب اور پسماندہ علاقے کے عوام کی بدقسمتی یہ کہ اس علاقے کے ایم این اے شیخ روحیل اصغر کی اپنی کئی فیکٹریاں انہی ٹائروں کے ایندھن پر چل رہی ہیں۔اس کے علاوہ ان کے بہت سے دوست احباب جو کہ اس کاروبار میں شامل ہیں کی بے شمار فیکٹریاں بھی اسی غیر قانونی دھندے میں دن رات مصروف عمل ہیں۔اس دھوئیں کے باعث اب تک کئی اموات ہو چکی ہیں۔لوگ پریشان ہیں کہ کہاں جائیں اس قاتل دھوئیں کا کیا حل کیا جائے؟ بے حسی کی انتہا دیکھئے کہ جب علاقے کے لوگ شکایت لے کر جناب شیخ روحیل اصغر کے دفتر پہنچے تو وہاں پر موجود ان کے صاحبزادے خرم روحیل اصغر بھی اس دھوئیں کی وجہ سے پریشان دکھائی دئےے لیکن ان کی پریشانی ہرگز ہرگز ان کی صحت یا دیگر معاملات نہ تھے بلکہ ان کی پریشانی ان کی مرسڈیز گاڑی کو بار بار دھلوانا تھی۔ موصوف فرمانے لگے کہ ادھر گاڑی دھلوا کر لاتے ہیں اور شام تک پھر گندی ہو جاتی ہے۔گاڑی کی سفید لیدر کی سیٹیں تک کالی ہو جاتی ہیں۔ اس موقع پر ایک صاحب نے کہاکہ آپ لوگ تو گاڑیوں والے ہیں ہمارے بچے تو سارا دن سکول اور گھروں میں کھلی ہوا میں اس زہر کو اپنے سینے میں اتارنے پر مجبور ہیں۔ آئے دن بیماریوں کی وجہ سے ڈاکٹروں اور دوائیوں پر ہزاروں روپے خرچ ہو رہے ہیں کبھی ان بچوں کا بھی خیال کر لیں۔ ایک خاتون کا کہنا تھا گھروں میں صفائی کے ہزار جتن کرنے کے باوجود عورتیں ذہنی پریشانی میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ بچوں او ر بڑوں کے کپڑے چند گھنٹوں میں دوبارہ دھونے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ بارہا ہاتھ اور چہرہ صابن کے ساتھ دھونے کے باوجود صاف نہیں ہوتا البتہ صابن ضرور کالا ہو جاتا ہے۔ ہر کسی کا مسئلہ الگ لیکن تمام مسائل کی وجہ ایک ہی تھی جس پر روحیل اصغر نے کہا کہ ہماری حکومت ان مسائل کو حل کرنے میں دن رات کام کر رہی ہے۔
غضب یہ کہ محکمہ ماحولیات ،پولیس، سپیشل برانچ کے اہلکار اور اس کے علاوہ ان کے اپنے کارندے دن رات ان فیکٹریوں سے بھتہ وصولی میں لگے رہتے ہیں اور فیکٹری مالکان اس لیے بھتہ دیتے ہیں کہ ان کو نا تو کوئی ڈی سی او آفس سے پوچھنے والا آئے گا اور نہ ہی کسی اور سرکاری اداروں سے تاکہ جب تک چاہیں علاقے میں موت بانٹتے رہیں۔میں خادم اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کو اس مسئلہ کی طرف متوجہ کرنا اپنا صحافتی اور ملی فرض سمجھتا ہوں کہ ان کی ناک کے نیچے عوام کا کیا حال ہے اب تو عالمی ماحولیاتی تنظیمیں بھی چیخ چیخ کر حکومت کی کارکردگی کا واضح ثبوت مہیا کر رہی ہیں۔