Tayyab Mumtaz

انسانی حقوق کا عالمی دن اور کاغذی کارروائیاں

دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے ، جس کا آغاز1948ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے انسانی حقوق کے عالمی منشور کو اختیار کرنے پر ہوا تھا ۔ اس سال انسانی حقوق کا یہ عالمی دن ”آئین ہر کسی کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں“ کے تھیم کے ساتھ منایا جارہا ہے ۔
حکومت پنجاب نے انسانی حقوق اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے صوبہ کے36اضلاع میں ہیومن رائٹس ڈیفنڈرز کا تقرر کیا ہے جو نہ انصافی وظلم کا شکار ہونے والوں کو مفت قانونی امداد فراہم کررہے ہیں ۔ ضلعی سطح پر قائم انٹر فیتھ کمیٹیاں اور اقلیتی مشاورتی کونسل میں تمام مذاہب کے علماءکوشامل کیاگیاہے ۔ جس سے مطابقت کی فضا قائم ہوئی ہے ۔ صوبہ پنجاب میں حقوق انسانی کے حصول کے حوالے سے لوگوں کا شعور اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم کے تحت سیمینارز کا انعقاد بھی باقاعدگی سے عمل میں لایا جارہا ہے ۔ جبکہ مختلف بین الاقوامی حقوق انسانی کے کنونشز پر عملدرآمد کے لیے متعلقہ محکموں سے بھی مسلسل رابطہ رکھا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے موثر قانون سازی او اس پر سختی سے عملدرآمد انتہائی ضروری ہے ۔ صوبہ پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ویژن کے تحت شہریوں کو بلا امتیاز بنیادی حقوق اور سہولیات کی فراہمی کے لیے گزشتہ تین سال میں موثر قانون سازی عمل میں لائی گئی ۔ خاص طو پر معاشرے کے نادار اور غریب طبقہ کے بچوں جیسا کہ بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو مشقت سے بچانے اور انہیں تعلیمی دھارے میں شامل کرنے کے علاوہ خدمت کارڈز کے ذریعے انہیں اور ان کے والدین کو مالی امداد فراہم کی گئی ہے ۔ بھٹہ مزدوروں کو پیشگی کی زنجیروں سے آزادی دلانے کے لیے بھی قوانین میں ترمیم کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ خواتین پر شامل تشدد اور انہیں ہراساں کرنے کے رویے کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی قانون سازی ہوئی ہے جو ایک خوش آئند امر ہے ۔ محکمہ انسانی حقوق واقلیتی امور کے لیے 5فیصد کوٹہ مختص کیاگیا ہے ۔ اقلیتی طلبا کو تعلیمی وظائف دئیے جارہے ہیں جبکہ سالانہ ترقیاتی بجٹ میں اقلیتوں کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی ہے ۔ میرج رجسٹریشن اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت اقدامات کیے گئے ہیں ۔ چائلڈ لیبر اور گھریلو تشدد کے خاتمے جبکہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مختلف پیکجز بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔ حکومت پنجاب کی جانب سے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بچوں سے مشقت، خواتین پر تشدد، کم عمری کی شا دی اور غیر اخلاقی عمل کے خلاف موثر قانون سازی کی گئی ہے ۔جبکہ اقلیتوں اور معذور افراد کے تحفظ کے لیے بھی ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جارہے ہیں۔پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں خواتین کو وراثتی جائیداد میں حصہ دلانے، نکاح نامہ درست پر کرنے اور رجسٹرڈ کرانے ، فیملی کورٹ کی کارروائیاں جلد از جلد مکمل کرنے اور16سال سے کم عمربچیوں کی شادی کرنے کو جرم قرار دینے کے قانون میں ضروری ترمیم بھی کی ہیں اس کے علاوہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ بھی دیا جارہا ہے ۔کرسمس کے موقع پر صوبے کے مختلف شہروں میں کرسمس بازاروں کا انعقاد اورمستحق مسیحی افراد کے لیے مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے ۔ ان اقدامات کا مقصد اقلیتوں میں احساس تحفظ پیدا کرنا اور انسانی حقوق کی پاسداری کا پرچار بھی ہے ۔
یہ وہ باتیں ہیں جو ساری کی ساری کاغذ کی حد تک تو ٹھیک لگتی ہیں مگر تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے چائیلڈ لیبر پاکستان دنیا میں اس وقت تیسرے نمبر پر ہے،انسانی حقوق کا یہ عالم ہے کہ دن دیہاڑے خواتین کو ایجنسیوں کے لوگ اٹھا لیتے ہیں اور سالہا سال گزرنے کے باوجود ان کے گھر والوں کو کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور وہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور رہتے ہیں۔اس کا بھائی خودکشی کر لیتا ہے،میاں شہباز شریف کی ناک کے نیچے بیٹھے لوگ دن دیہاڑے ٹائر جلاتے ہیں قانون تو اس کا بھی پاس ہوا تھا کہاں گئے دعوے ان کے کہ کوئی فیکٹری ایندھن کے طور پر ٹائر اور ربڑ نہیں جلا پائے گی۔ اسی وجہ سے گزشتہ تین ماہ سے لاہور اور ملحقہ علاقوں میں سانس کی بیماریاں عروج پر ہیں کئی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔میاں صاحب آپ کے اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز ان تمام غیر قانونی دھندوں میں ملوث ہیں ان کے لیے قانون حرکت میں بھی نہیں آسکتا۔
میں یہاں یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے آئین کے مطابق تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں کیونکہ دنیا کے تمام مذاہب، امن وآشتی ،رواداری اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں ۔ ہم اپنے مذہب کے اصولوں پر عمل کرکے اور لوگوں کو ان کے حقوق دلا کر معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں ۔ ایک ایسا پاکستان تشکیل دینے کے لیے جس کی پہچان امن ہو ، ہمیں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا ۔ آئیے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات اور نادار لوگوں کو ان کے حقوق دینے کے لیے انصاف کا ساتھ دیں اور ایک مثبت اور انصاف پسند معاشرہ تشکیل دیں صرف اسی صورت میں ہمارا ملک مہذب اور تعلیم یافتہ قوموں کی صف میں شمار ہوسکے گا ۔جب ہم ان پسے ہوﺅں کو ان کے حقوق دیں گے صرف کاغذی کاروارئیاں تو 68سال سے ہوتی آرہی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button