16دسمبر، پاکستان کا دل چھلنی ، زخم آج بھی تازہ
بھیگا دسمبر بہت سُوں کے لیے اداس ہی رہتا ہے لیکن یہ دسمبر جب بھی پاکستان میں آتا ہے تو آبدیدہ کرجاتا ہے ، مجھے اس ماں کے الفاظ آج تک نہیں بھولے جب ایک صحافی کو جواب دیتے ہوئے سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہید طالب علم کی ماں نے کہا تھا کہ ”بھائی میں نے بیٹے کو سرحد پر جنگ لڑنے نہیں سکول بھیجا تھا “۔
پاکستان کے دشمن کو چین نہیں آتا ہوگا جو دونوں دفعہ اس قوم پر ظلم ڈھاکر بھی اپنے مقاصد میں ناکام ٹھہرا ، دھاڑیں مار مار کر تو اسے رونا چاہیے جس نے ایک بار ملک کے دو حصے کیے تو دوسری بار قوم کو جوڑ دیا ۔ دونوں سانحے اذیت ناک اور تکلیف دہ ہیں ۔سقوط ڈھاکہ کا ذکر آتے ہی بھرے ہوئے زخم تازہ ہو جاتے ہیں تو سانحہ آرمی پبلک سکول یاد آتے ہی دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو کرتا ہے ۔45سال پہلے آج ہی کے دن پاکستانی قوم نے اپنے وطن کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے دیکھا ۔ تو ٹھیک2سال قبل انہی پاکستانیوں نے اپنے لخت ننھے منے جگر گوشوں اور قوم کے معماروں کو دشمن کے ہاتھوں میں لہو لہو دیکھا ۔
16دسمبر2014ءکو آرمی پبلک سکول پشاور میں چلنے والی گولیوں سے اٹھارہ کروڑ عوام کا سینہ چھلنی کرنے کا دن ۔ لہو سے فتح کے چراغ روشن کرنے کا دن ، بزدل دشمن کو نیست ونابود کرنے کے عزم کا دن ہے ۔ وہ دن جو144خاندانوں پر ہمیشہ کے لیے قیامت برپا کرگیا ۔ وہ دن جب 144چہرے خون شہادت سے امر ہو گئے ۔ وہ دن جب معصوم بچوں کے وجود سے بہنے والے لہو کا ایک ایک قطرہ دفاع وطن کی فصیل بن گیا اور ہر دل میں ناموس وطن کے لیے قربان ہونے کے عظیم جذبات بیدار ہوئے ۔ خیبر سے کراچی تک پوری قوم اس لہو کے صدقے سیسہ پلائی دیوار کا روپ دھار گئے ۔
کہتے ہیں جب جوانوں کے کاندھوں پر بزرگوں کے جنازے ہوں تو اسے زمانہ امن کہتے ہیں مگر جب بوڑھے مل کر جوانوں اور بچوں کے لاشے اٹھائیں تو وہ جنگ کازمانہ ہوتا ہے ۔ 16دسمبر2014ءکی وہ خون آشام صبح جب پھولوں جیسے بچے ماﺅں کی آغوش سے نکل کر ہنستے کھیلتے سکول پہنچے لیکن دس بج کر چالیس منٹ پر ان معصوموں پر قیامت برپا کردی گئی ۔
دہشت گرد سکول میں داخل ہوئے اور گولیوں سے پھولوں اور کلیوں ایسے نرم ونازک جیسے بچوں کو چھلنی کرتے گئے ۔پاک فوج کے جوان مستقبل کے ان معمارو ںکی جان بچانے کے لیے پہنچے تو بزدل اور سفاک ترین دہشت گردوں نے ان بچوں کو ڈھال بنا لیا ۔
خود کش جیکٹس اور جدید اسلحہ سے لیس حملہ آوروں نے قوم کے ان نونہالوں کے خون سے سکول کے درودیوار کو گلنا کردیا ۔
گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور دھماکوں سے ہر طرف ان معصومو ںکی لاشیں بکھر گئیں ۔کلاس رومز سے لے کر اسکول کا اکثر حصہ تک فرشتہ صفت بچوں کے لیے پاکیزہ خون سے ناقابل فراموش ظلم وستم کی لہو رنگ داستاں تحریر کرگیا ۔ مائیں روتی بلکتی اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں اسکول پہنچیں تو کسی کی مامتا اجڑ گئی تو کسی باپ کے خواب بزدل دہشت گرد کے ہاتھوں چکنا چور ہو چکے تھے ۔ اسے سانحہ کہیں، قیامت یا پھر کوئی اورنام دوں ؟ تاریخ اس اندوہناک واقعے پر ہمیشہ ماتم کرتی رہے گی ۔
سانحے کو پورے دو سال ہوچکے ہیں لیکن غم ہے کہ مٹتا ہی نہیں کرب ہے کہ جاتا ہی نہیں اور آنسو ہیں کہ رکتے ہی نہیں۔ بزدل دشمن نہیں جانتا اس نے اے پی ایس میں سیکڑوں پھول تو مسل دئیے لیکن ان کی خوشبو امن کی پہچان اور وطن کی آن بن گئی ۔ قریہ قریہ شہر شہر ان ننھے مجاہدوں اور شہداءکو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے ۔
دوسری جانب سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن جو شاید کبھی مٹ نہ پائے ۔16دسمبر1971ءوہ دن تھا جب بھارت کی سازشوں اور کچھ ”اپنوں کی بے وفائی “ سے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک پاکستان دو لخت ہو گیا ۔ مشرقی پاکستان کی مقامی آبادی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف دشمن کے ساتھ کھڑی ہو گئی ۔ ہمارے90ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انہوںنے بھارت کی قید میں طویل مدت گزاری ،45برس گزرگئے ۔ مگر آج بھی اس دن کی تکلیف اور اذیت روز اول کی طرح تڑپا دیتی ہے ۔ سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا تعین ہوا اور نہ کسی کو سزا دی گئی ۔
1971ءسے 2014 تک پاکستان نے 2بڑے سانحات دیکھے ۔ دعا ہے کہ اب پاکستان اور قوم کو مزید دکھ نہ جھیلنا پڑے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو ہماری معصوم عوام روز ایک نئی مصیبت سے گزرتے ہیں ،کبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ ،کبھی گیس کی شارٹج اور کبھی پیٹرول بحران ان کا منہ چڑاتا ہے۔مگر یہ واقعی زندہ دل قوم ہے نہ یہ بدلیں گے اور نہ ہی ان کے دن ۔
کیونکہ
اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں تب تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتی جب تک وہ خود نہ بدلنا چاہے ،ہم وہی گھسے پٹے وعدوں اور چہروں والوں کو دوبارہ منتخب کرتے ہیں اور اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں۔اس لیے شاید ہماری حالت نہ بدل سکے۔