مقبولیت میں نمبرون!!!
حیران کن بات یہ نہیں کہ وزیراعظم نواز شریف عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیں ۔ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ چند ماہ پہلے عملی سیاست میں نیم دلی سے قدم رکھنے والے بلاول ، رینکنگ کی دوڑ میں عمران خان نے قریب پہنچ چکے ہیں ، بہت قریب، فرق صرف چند قدموں ، چند پوائنٹس کا ہے ۔
حکمران تو مقبول ہی ہوا کرتے ہیں ۔ اس وقت تک جب ان کی اپوزیشن میں سے کوئی اٹھ کر ان کی فتح کو شکست میں تبدیل نہ کردے ۔ عوام ان کو دیا ہوا مینڈیٹ واپس لے کر ، یہ آزمائش کسی اور کے ذمہ ڈال دیں ۔ اقتدار کوئی لطف اندوز ہونے کی چیز نہیں بلکہ کڑی آزمائش ہے ۔ لہٰذا سروے رپورٹ کے نتائج قلم کار کے لیے ہر گز حیرت کا باعث نہیں ۔ حقائق اور اعداد وشمار کا جادو آخر کار سر چڑھ کربولتا ہے ۔ شواہد کو چھپایا جاسکتا ہے ۔ حقائق کو نہیں ۔ اعداد وشمار کو توڑا موڑا جاسکتا ہے ۔ ان کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔ پراپیگنڈہ ، تشہیری مہم حب علی کی بجائے بغض معاویہ میں چلائے گئے تنقید کے خنجر، نشتر ، نیزے اور بھالے، کسی اپوزیشن لیڈر کو کاغذی نجات دہندہ کے طور پر پیش کرسکتے ہیں ۔ لیکن ایسا عارضی طور پر تو ہوسکتا ہے ایسی مقبولیت ، ایسی شہریت ، پانی کی سطح پر بہتے بلبلوں ایسے ہوتے ہیں جو چند سیکنڈوں کے لیے بنتے اور غائب ہوجاتے ہیں ۔ لیکن جب فیصلہ عوا کے ہاتھ میں آتا ہے تو وہ پورا ناپ تول کر فیصلہ کرتے ہیں ۔ایسی صورت حال میں اربوں روپے کی پبلسٹی سے تیار کیاگیانجات دہندہ کے چہرے سے اصل نقاب ہٹ جاتا ہے اور اصلی وحقیقی تصویر سامنے آجاتی ہے ۔ امریکی ریسرچ ادارے انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ اور انسٹی ٹیوٹ فار پبلک اوپینئن ریسرچ کے سروے میں کوئی بات حیران کن نہیں ۔ سروے کسی ایک سیاسی شخصیت، کسی ایک سیاسی جماعت کو ٹارگٹ بنا کر کنڈیکٹ نہیں کیاگیا ۔ نہ ہی اس کا دائرہ کار کسی ایک صوبے تک محدود ہے ۔ سروے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف63پوائنٹ حاصل کرکے قومی سطح کے لیڈرو ںمیں سے مقبولیت کی سیڑھی سب سے اوپر کھڑے ہیں ۔ مقبولیت میں ان کے نزدیک ترین حریف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہیں ۔ ان کے حاصل کردہ پوائنٹ 39ہیں ۔ گویا نواز شریف اور عمران خان کے درمیان پندرہ پوائنٹ کا فرق ہے ۔ گویا عمران خان کاغذوں کی حد تک دوسری پوزیشن پر ہیں ۔ لیکن عملی طور پر وہ اس دوڑ میں وزیراعظم پاکستان سے بہت فاصلے پر ہیں ۔ شاید ان کی فرسٹریشن کی وجہ بھی یہی ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے نو عمر چیئرمین بلاول بھٹو جن کی سیاسی عمر ابھی چند ماہ سے زیادہ نہیں ۔ ان کے حاصل کردہ پوائنٹس32فیصد ہیں ۔ گویا ان کے اور اپنے تیئں نوجوانوں کے مقبول ترین عمران خان کے درمیان پوائنٹس کا فرق صرف سات کا ہے ۔ جس کا مطلب ہے کہ عمران خان نے تو اپنے حریف کو چھونے کے لیے 15پوائنٹس کا فاصلہ طے کرنا ہے ۔ جبکہ بلاول کو دوسری پوزیشن حاصل کرنے کے لیے یا عمران خان کے برابر پہنچنے کے لیے صرف سات نکات کی خلیج باٹنی ہے ۔ جو بہت زیادہ گہری نہیں ۔ اس نتیجہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اصل مقابلہ اس وقت یہ ہے کہ دوسری پوزیشن کس لیڈر اور جماعت نے حاصل کرنی ہے ۔ وہ جو نمبرون پر کھڑاہے ۔ فی الحال اس کی سیاسی حیثیت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ۔ کوئی ہے کیا ؟ آگے بڑھنے سے پہلے تھوڑا ساتذکرہ ،دو انقلابی قائدین کا ۔ جو بزعم خود عوام کی نبض شناس شمار کیے جاتے تھے ۔ خیال ان کا اپنے تئیں یہ تھا کہ وہ اپنے فدائین اور مریدین کو جاری کئے گئے ایک حکم کی مدد سے جب چاہیں انقلاب برپا کرسکتے ہیں ۔ جب چاہیں کراچی کو بند کرسکتے ہیں ۔ جب چاہیں دیار غیر میںبیٹھے فرمان امروز جاری کرکے نظام زندگی کوب ، کاروبار مملکت کو جام کرسکتے ہیں۔ حیرت انگیز افاق ہے کہ دونوں جملہ قائدین حضرت شیخ شعبدہ علامہ طاہر القادری اور الطاف بھائی المعروف پیر بھائی ، بالترتیب کینیڈا اور برطانیہ میں مقیم ہیں ۔ عوام تو شب تراویح ، شب بیداری ، دیگر روحانی ومذہبی اجتماعات میں شرکت کے لیے وقتاً فوقتاً اپنے ملک ثانی پاکستان میں تشریف لے آیا کرتے ہیں ۔ آزدورفت کے لیے ان بابرکت روز وشب میں مریدین زیارت بھی کرلیا کرتے ہیں ۔ چندے وعطیات کی جملہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ۔ اس عارضی وقفے کے دوران علامہ انقلاب کی رکی ہوئی گاڑی کو مہمیز لگانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ خوب گرجتے اور آخر کار برسے بغیر رخصت ہوجایا کرتے ہیں ۔ علامہ صاحب کو ناپسندیدگی کے سروے میں79فیصد جبکہ یورپ کے مہمان الطاف حسین کو ناپسندیدگی کے مقابلے میں85ووٹ ملے ہیں ۔ قائد محترم کبھی کراچی وحیدرآباد کے 85فیصد مینڈیٹ کے مالک ہوا کرتے تھے ۔ ان کے بیشتر خطابوں ، بے سروپا باتوں ، لا یعنی تقریروں اورمتلون مزاج کو اہل کراچی نے طویل عرصہ برداشت کیا لیکن جب خود ساختہ انقلابی مادر وطن ، اس کی آزادی وخودمختاری کا سودا ازلی دشمن سے کرنا چاہا تو عوام کے دل بدل گئے ۔ اب کراچی کی گلیوں، بازاروں میں آدم بو، آدم بو پکارتا عفریت بوتل میں بند کیا جاچکا ۔ کراچی آزاد ہوچکا ۔ کراچی کے مینڈیٹ کے مالک ہونے کے دعویدار الطاف حسین اب نا پسندیدہ شخصیات میں سے نمبرون پوزیشن کے حامل ہیں ۔ ان کے بعد سابق صدر مملکت آصف زرداری ہیں جو تیسرے نمبر پر براجمان ہیں ۔ بندہ مزدور بھول گیا کہ اپنی قبیل کے دیگر دو رہنماﺅں کی طرح آصف زرداری بھی اپنی جدوجہد امریکہ ، دبئی اور لندن کے میدانوں میںبیٹھ کرکیا کرتے ہیں ۔ یہ سروے اگر کبھی ان کی نظروں سے گزرا تو وہ اپنے آپ سے سوال ضرور کریں گے کیا کھویا، کیا پایا ؟ دولت یا بدنامی ، نقصان میں رہے یا فائدہ میں ۔ اگر کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ معلوم نہیں کہ وہ اخبارات پڑھتے ہیں یا نہیں ۔ البتہ اتنای ضرور ہے کہ اپنی کمپنیو ںکے نافع کی بیلنس شیٹ ہمہ وقت ان کے زیرمطا لعہ رہتی ہے ۔ بات ہو رہی تھی وزیراعظم پاکستان کی مقبولیت کی ۔ ان کے اقتدار کے چار سال مکمل ہونے میںچند ماہ باقی ہیں ۔ آخری سال کاﺅنٹ ڈاﺅن اور الیکشن کا ہوگا ۔ سیاست اور قیادت کے ہر معیار سے وہ اور ان کی پارٹی مقبولیت کے پہلے نمبر پر فائز ہے ۔ مئی2013ءکے انتخابات میں انہو ںنے جن نعروں پر الیکشن لڑااور جیتا ۔ آج ان نعروں پر تیزی سے عملدآمد جاری ہے ۔ پونے چار سال پہلے جب نواز شریف نے عنان اقتدار سنبھالی تو ملک لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا ۔ آج لوڈ شیڈنگ صرف چار تا چھ گھنٹے رہ گئی ہے ۔ صنعتی سیکٹر بجلی کی بندش سے مستثنیٰ ہے ۔ امکان غٓلب ہے کہ 2018ءتک ملک سے لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہوگا ۔ معیشت کی حالت دگر گوں تھی ۔ آج2017ءکے اوائل میںبین الاقوامی جریدوں، میگزینوں اور معاشی تخمینے لگانے کے ماہر اداروں کی گواہی بارب ار آرہی ہے ۔ یہ انڈسٹری کیٹر بتاتے ہیں کہ معیشت ٹیک آف کرچکی ہے ۔ ابھی حال ہی میں جاپانی میگزین حیران کن دعویٰ کرچکا ہے کہ پاکستان تیز ترین ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے ۔ ایک اور رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا میں معاشی ترقی تیز ترین کرنے والا ملک بن چکا ۔ بلوم برگ تسلیم کرچکا کہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ انڈیا سمیت اپنی ہم عصر سٹاک مارکیٹ کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے ۔ ابھی چند روز پہلے وال سٹریٹ جنرل ایسے موقر اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس کا سائز جرمنی اور ترکی کی آبادی سے بھی بڑھ چکا ہے ۔ پاکستانی عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ وال سٹریٹ جنرل کا تجزیہ نگار کہتا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں غربت میں کمی، دہشت گردی کا خاتمہ ہوا اور سیاسی استحکام حاصل ہو رہا ہے ۔ امن وامان، پالیسیوں کا تسلسل، سیاسی استحکام، توانائی کی فراہمی، چند ایسے انڈی کیٹر ہیں جو دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو کسی ملک میں دلچسپی لینے پر مجبور کرتے ہیں ۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جو ہنڈائی ایسی کمپنی کو پاکستان میں پلانٹ لگانے کی جانب راغب کررہے ہیں ۔ امریکی اور چینی سرمایہ کاروں کو سرمایہ لگانے کی ترغیب دے رہی ہیں ۔ نواز شریف نے اگر مقبولیت میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے تو اس کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں ۔ جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ لیکن لمحہ فکریہ تو ان کے لیے ہے جو دعویٰ کررہے ہیں کہ اگلے سال وہ برسراقتدار ہوں گے ۔ ان کو خود احتسابی کے عمل سے گزرناہوگا ۔ یہ سوچنا ہوگا کہ وہ نواز شریف سے میلوں پیچھے کیوں اور بلاول ان کے اتنا قریب کیسے آگیا ۔ ان کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اگر نمبرون اور تیسری پوزیشن کا حامل الیکشن میں متحد ہو گئے تو وہ کیسا منظر نامہ ہوگا ۔ آخر یہ سیاست ہے ۔ جس میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا ۔ ان کو تجزیہ کرنا ہوگا کہ وہ کون سی ایسی غلطیاں ہیں جن کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں اضافے کی بجائے کمی ہو رہی ہے ۔