Tayyab Mumtaz

سڑکیں ہی نہیں، صحت اور تعلیم بھی !!!

طون عزیز کے ہر باسی کی خواہش ہے کہ اس کی دھرتی پہ پھول اُگیں اور لوبان کی خوشبو ہر سو بکھرے ۔ فضاﺅں میں امن ومحبت کے گیت ابھریں ۔ آزاو پرندے اڑانیں بھریں اور خوشحالی کے ڈھول پوری قوت سے پیٹے جائیں۔ ان دنوں جب وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف ترقی کی علامت کسی سڑک وغیرہ کی تعمیر مکمل ہونے پر اس کے افتتاح کی تقریب کے موقع پر فیتہ کاٹتے ہیں تو لوگوں کو بڑی خوشی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی شعبے میں کوئی ”ترقی “ہو رہی ہے جس کا فائدہ محدود تعداد کو ہی سہی ضرور پہنچتا ہے مگر انہیں حقیقی مسرت اس روز وگی جب وہ زندگی کے لازمی لوازمات کے ذرائع کا افتتاح کررہے ہوں گے کیونکہ ان کے بغیر کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ ان کے ذہنوں اور شکموں میں طغانیاں آجاتی ہیں ۔ انہیں جب یہ بے بس وبے حال کردیتے ہیں تو وہ جرائم کی دنیا کا بھی رخ کرلیتے ہیں ۔ لہٰذا جناب وزیراعظم بلا شبہ سڑکیں بنا کر اچھا کام کررہے ہیں مگر بنیادی مسائل کو جب تک وہ ترجیح نہیں دیں گے عوام کی توجہ اور ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے ….؟
حزب اختلاف شاید ان پر اسی لیے تنقید کررہی ہے ۔ اسے عوام کی ترقی وخوشحالی سے اختلاف نہیں ہوسکتا وہ تو خود اس کے لیے آواز بلند کررہی ہے ۔ جلسے ، بیانات اور مظاہرے سب عوا م کے بہتر مستقبل کے لیے ہیں لہٰذا اسے کوئی تکلیف اور نہ کوئی پریشانی ہوسکتی ہے ہاں اسے البتہ یہ پریشانی ہوگی کہ حکومت اپنے اقتدار کے آخری برس ہی کیوں ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کررہے اسے پہلے کیوں یاد نہیں آیا …. صاف بات ہے کہ حکومت اپنے ووٹروں کے حافظے سے اپنی تصویر محو نہیں ہونے دینا چاہے گی تاکہ وہ عام انتخابات میں اس کے انتخابی نشان کو نہ بھول سکیں ۔ اگر اس کا حزب اختلاف کا یہ خیال ہے کہ وہ دھاندلی کی بنیاد رکھ رہی ہے تو اس کا فیصلہ عوام کو کم کرنا ہے ۔ وہ سمجھیں گے کہ حکومت ان سے کوئی چالاکی کررہی ہے لہٰذا انہیں اسے منتخب نہیں کرنا چاہیے تو وہ اپنا ووٹ کسی دوسرے کو دے دیں گے حزب اختلاف کے واویلے سے وہ متاثر نہیں ہونے والے کیونکہ وہ سیاسی اتار چڑھاﺅ اور سیاست کے اسرار ورموز کو بڑی حد تک جان گئے ہیں ۔ اب وہ یہ بھی کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ کوئی سیاسی رہنما انہیں کیا سیاست کاری کے ضوابط اور قواعد سمجھائے بتائے گا طویل عرصہ گزرنے کے بعد وہ انہیں ازبر ہو گئے ہیں ۔ لہٰذا حکومت کے کسی کارنامے پر اس کے سیاسی حریفوں کو لب کشائی نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی حکومت کے سربراہان وعہدیداران کو پھٹ پڑنا چاہیے ۔ میاں صاحب کو اترانے سے بھی گریز کرنا چاہیے اور یہ کہنا ضروری نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ محنت کرکے پھل کما رہے ہیں ۔ وہ جس قدر محنت کررہے ہیں اور پسینہ وخون بہارہے ہیں سب عوام کے سامنے ہے اب وہ اپنی دولت کو بھی خون پسینے کی کمائی کا ثمر کہتے ہیںجبکہ حقائق عدالت کے روبرو پیش کرنے میں کسی حد تک ناکام رہے ہیں ۔ ہمیں تو یہ معلوم ہے کہ موجودہ دور میں پیسہ جمع کرنا ہے تو مروجہ طریقے اورروایتی ذرائع ترک کرنا پڑیں گے لہٰذااربوں اور کھربوں کے انبار کھڑے کرنا آسان نہیں ہے ۔ کالے دھن ہی نے کسی کو امیر بنایا ہے اور پسینہ بہانے والے کو ہی غربت کی چکی میں پسنا پڑا ہے ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاستدان حضرات اپنے تئیں یہ سمجھ کر کہ وہ عوام کو معلومات فراہم کررہے ہیں تاکہ ان کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوسکے محض خام خیالی ہے اس کے الٹ اثر ہوتا ہے ان کے بھاشنوں کا ۔
دوسری طرف لاءاینڈ آرڈر کا یہ عالم ہے کہ دن دیہاڑے بم دھماکے ہو رہے ہیں خاص طور پر میڈیا پر حملے معمول بن گئے ہیں۔کراچی میں اتوار کے روز سماءٹی وی پر فائرنگ کے نتیجہ میں اسسٹنٹ کیمرہ مین جاں بحق ہو گیا ۔ نارتھ ناظم آباد کے ڈی اے چورنگی کے سما ٹی وی کی سیٹلائٹ وین کو نشانہ بنایاگیا ۔ اتوار کو فائیو سٹار چورنگی پر پولیس وین پر کریکر حملہ کیاگیا ۔ اس کی کوریج کے لیے جانے والی سماءٹی وی کی وین پر نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کردی جس سے اسسٹنٹ کیرہ مین تیمور جاں بحق ہو گیا تاہم ڈرائیور اور تکنیکی عملہ محفوظ رہا ۔ پولیس کے مطابق ڈی ایس این جی پر 5سے 7گولیاں فائر کی گئیں ۔ ڈاکٹروں کے مطابق گردن میں لگنے والیے گولی جان لیوا ثابت ہوئی ۔ آئی جی نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ملزموں کی گرفتاری کے احکامات دئیے ہیں ۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ یہ آزادی صحافت پر حملہ ہے ۔ وفاقی حکومت قاتلوں کی فوری گرفتاری کے لیے صوبائی حکومت سے تعاون کرے گی ۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگ زیب نے کہا کہ صوبائی حکومت قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی سکیورٹی کے ضابطے کو یقینی بنایا جارہا ہے ۔ جرنلسٹ سکیورٹی اینڈ ویلفیئر بل 2017ءمکمل ہوچکا ہے ۔ بل جلد پارلیمنٹ سے منظور ہو جائے گا ۔ اس سلسلے میں صحافتی تنظیمیں کئی بار حکومت اور میڈیا ہاﺅسز کے مالکان سے یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کا بندوبست کیا جائے ۔ اس ضمن میں حکومتی ادارے ابھی تک نہ تو کوئی پالیسی بنا سکے ہیں اور نہ ہی کوئی فورس یا طریق کار اپنا سکے ہیں ۔حکومت نے اس بارے میں ہر واقعہ کے بعد نیا وعدہ کیا مگر وہ وعدہ اگلے وعدے کے آنے تک وعدہ ہی رہا ۔ صحافتی تنظیموں نے حکومت سے بار ہا یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ جس طرح میڈیا کے اداروں نے اپنی مشینری، کیمروں اور دیگر قیمتی آلات کی انشورنس کرائی ہوتی ہے فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں ، فوٹوگرافروں، کیمرہ مینوں اور دیگر سٹاف کی بھی انشورنس کرائی جائے تاکہ اگر کسی حادثہ میں جانی نقصان ہو تو جاں بحق ہونے والے کے لواحقین کی کچھ مالی اعانت ہو سکے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جائز مطالبہ ہے ۔ اس ضمن میں حکومت قانون سازی کرکے ہر میڈیا ادارے کے ماتحت کام کرنے والے تمام کارکنوں کی انشورنس لازمی قرار دے اور اس قانون پر پوری طرح عمل بھی کرایا جائے حکومت اس معاملے میں فوری قانونی کارروائی کرکے اس کو نافذ کرے ۔ ہم حکومت سندھ اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ وہ متوفی تیمور کے اہل خانہ کو مناسب مالی اعانت فراہم کریں تاکہ یہ خاندان اس کی موت سے جس مشکل میں مبتلا ہوا ہے اس میں کچھ کمی آسکے ۔ حکومت قاتلوں کو بھی گرفت میں لائے تاکہ ان کو سزا دی جاسکے اور کراچی شہر میں امن کوب حال کرنے میں مدد ملے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button