عابد باکسر کے بعد راﺅ انوار پاکستان میں پولیس مقابلے
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میاں شہباز شریف کا پہلا دور حکومت تھا لاہور میں عابد باکسر ،احمد رضا طاہر اور کچھ مزید پولیس والے ایسے تھے جو کہ پولیس مقابلوں کے ماہر ترین مانے جاتے تھے۔مجھے یہ بھی یاد ہے کہ سبزہ زارمیں ایک پولیس مقابلہ ایسا ہوا کہ ان دنوں لاہور میں بہت بارشیں ہو رہی تھیں سبزہ زار میں کھلے میدان میں جہاں ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ تھا اور وہاں تین نوجوان لڑکوں کو پولیس نے رات کے اندھیرے میں وہاں ہتھکڑیوں کیساتھ پولیس مقابلے میں پار کیا اور ظاہر کیا کہ ملزمان نے پولیس کی حراست سے بھاگنے کی کوشش کی اور پولیس پارٹی پر فائرنگ کی اور جوابی فائرنگ میں تینوں مارے گئے آج تک ہائیکورٹ میں وہ کیس چل رہا ہے ۔جس میں لواحقین کو کبھی انصاف نہیں ملا۔اس طرح کی بہت سی مثالیں اور پولیس مقابلے میرے ذہن میں گھوم رہے ہیں اور یہ مقابلے ایسے تھے جن میں کبھی کوئی پولیس والا نہ تو مارا گیا اور نہ ہی کبھی زخمی ہوا۔آج کل کے پولیس مقابلوں میں تو مزید تیزی آ گئی ہے۔پولیس مقابلوں کے بارے میں شکوک وشبہات بڑھنے لگے ہیں ۔ اگر کوئی ایک مقابلہ بھی جعلی ثابت ہو گیا تو تمام مقابلوں کی ساکھ ختم ہو جائے گی اور پولیس مزید بدنام ہوگی ۔کراچی میں خاص طور پر ایسے کئی پولیس مقابلے مشکوک سمجھے جانے لگے ہیں ، راﺅ انوار ایسے کئی مقابلے کرچکے ہیں جن میں خطرناک مجرم تو مارے گئے مگر پولیس اہلکاروں کو خراش بھی نہیں آئی ۔ مقابلوں کے بعد اسلحہ برآمد کرلینا پولیس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے اور پھر کسی کالعدم تنظیم سے تعلق جوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ مرنے والوں پر کئی وارداتیں ڈال کر فائل بند کردیا جاتا ہے ۔ راﺅ انوار نے چند دن پہلے سہراب گوٹھ پر 8ایسے افراد کو ہلاک کیا جنہوں نے ان کے بقول پولیس پر فائرنگ کردی تھی ، پھر ملیر کے ایک فارم ہاﺅس میں چھپے ہوئے خطرناک مجرمو ںکو ماردیاگیا اور اطراف کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس تین دن سے علاقے میں گشت کررہی تھی ۔ یہ کیسے خطرناک مجرم تھے جو پولیس منڈلاتے ہوئے د یکھ کر بھی فرار نہیں ہوئے ۔ اب تازہ واردات منگھو پیر میں ہوئی ہے جس میں دو نوجوانوں کو قتل کرکے ان کا تعلق داعش سے جوڑ دیاگیا ۔ داعش کے ان خطرناک کارندوں میں ایک تو بارہویں جماعت کا طالب تھا ، ان مقتولوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ انہیں دو ماہ قبل سادہ لباس اہلکار گھروں سے اٹھا کر لے گئے تھے ۔ متعلقہ تھانوں میںان کی گمشدگی کی اطلاع بھی دی گئی لیکن پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا ، اور اب لاشیں تھما دی گئی ہیں ۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ یہ تو پہلے ہی سے حراست میں تھے اگر لواحقین کا دعویٰ درست ہے تو تھوڑی سی تحقیقات سے حقائق سامنے آسکتے ہیں ۔ تھانوںمیں مقدمات تو درج نہیں کیے گئے لیکن شاید شکایت کا کوئی کچا ثبوت دستیاب ہو جائے ۔ ان نوجوانوں کو گھروں سے اٹھایاگیا ہے تو محلے والوں کو دھمکائے بغیر کوئی گواہی مل سکتی ہے ۔ ان نوجوانوں کا کردار بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کیا یہ کسی غیر قانونی سرگرمی میںملوث تھے، کسی تھانے میں ان کے خلاف کوئی ریکارڈ تھا، لیکن یہ تحقیقات غیر جانب دار اور ایسی ٹیم کرسکتی ہے جو خود پولیس افسران کے دباﺅ میں نہ ہو، پولیس کے خلاف پولیس ہی سے تحقیقات عموماً نتیجہ خیز نہیں ہوتی ۔ اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سیہون میں خود کش دھماکے کے اگلے ہی دن اکٹھے100افراد کو مشکوک قرا ردے کر ماردیاگیا جیسے پہلے ہی سے طے تھا کہ فلاں فلاں کو مارنا ہے ۔ اگر یہ افراد مشکوک تھے تو ان پر پہلے کیوں ہاتھ نہیں ڈالا گیا اور سانحہ سیہون کا انتظارکیوں کیاگیا ۔ پولیس کی طرف سے مقابلوں کے نام پر یہ کارروائی ملک بھر میں ہو رہی ہے۔ایسانہیں ہوتا کہ مشکوک افراد کو صرف زخمی کیا جائے ۔ ماورائے عدالت قتل کا یہ سلسلہ بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ جنرل نصیر بابر نے شروع کیا تھا ۔ اس وقت فلسفہ یہ تھا کہ کسی کو بڑی کوششوں سے گرفتار کیا جاتا ہے تو وہ عدالت سے رہا ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ طویل مقدمے بازی اور ثبوت وگواہ کے چکر سے بچنے کے لیے گولی مار کر جان چھڑاﺅ، کئی قاتلوں سے جان تو چھوٹی اور دہشت گرد مافیا عارضی طور پر تتر بتر ہو گئی لیکن موقع ملتے ہی پھر جان پکڑلی لیکن اگر ان افراد میں سے دوچار بھی بے گناہ ہوئے تو اس کا عذاب کس کی گردن پر ہوگا ۔ یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹھوس ثبوت حاصل کرکے معاملہ عدالت میں پیش کرے ۔ محض شک پر کسی کی زندگی لینا انصاف کے منافی ہے ۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم نے بھی ماورائے عدالت قتل پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں پولیس کے کردار پر سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ کراچی سمیت ملک بھرمیں ماورائے عدالت قتل کی وارداتیں ہو رہی ہیں اور راہزنی بھی بڑھتی جارہی ہے ۔ لا قانونیت اور دہشت گردی کی کسی بھی بڑی واردات کے بعد اچانک بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو مارنے کی اطلاعات دی جاتی ہیں ۔ اس کے باوجود جرائم بڑھتے جارہے ہیں ۔ انتظامیہ کبھی تو موٹرسائیکل پر ڈبل سواری پابندی لگا دیتی ہے اور کبھی دفعہ144نافذ کردیتی ہے ۔ ظاہر ہے یہ مسائل کا حل نہیں ہے ۔ اب ایک عام تاثر یہ بن رہا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرن والے اداروں نے پہلے سے جن افراد کو حراست میں لے رکھا ہے ، مقابلو ںکے نام پر ان سے جان چھڑائی جارہی ہے ۔ یہ تاثر کس حد تک درست ہے ، اس پر خود قانون نافذ کرنے والے اداروں کو توجہ دینی چاہیے اور اگر یہ تاثر غلط ہے تو اسے دور بھی کیا جائے ۔ ابتدا منگھو پیر پولیس مقابلے سے ہی کردی جائے ۔ نہیں تو پنجاب میں میاں شہباز شریف کی آشیرباد سے ہونے والے پولیس مقابلوں کو ہی دیکھ لو ان کی کوئی انکوائری ہی کروا لی جائے شاید لوگوں کو انصاف مل جائے۔