8مارچ عورتوں کے حقوق کا دن زینت شہزادی کہاں ہے ؟
آٹھ مارچ ، خواتین کے حقوق کا عالمی دن ،کئی تقریبات کا انعقاد ہوا ہو گا،جو ساری کی ساری پنجاب حکومت کی مہربانی سے برپا کی جارہی ہیں۔ایوان اقبال کی تقریب کے مہمان خصوصی تو خود خادم اعلیٰ پنجاب ہیں جو خواتین کے حقوق پر آج دھواں دھار تقریر کریں گے ۔میڈیا پر بھی پچھلے کئی روز سے عورتوں کے حقوق کا دبا دبا شور دکھائی دیتا ہے ۔ مشاعرے، کانفرنسز اور خواتین کے حقوق سے آگاہی کے ایک روزہ پروگرام بھی ، آج کے دن کا حصہ ہیں، مگر صرف آج کے دن کا ، کل باسی اخبار،باسی کالم اور باسی خبر کی طرح ، کہیں ذکر نہ ہوگا اس عورت کا جو صرف ایک دن کے لیے بڑی خبر، بڑے ہنگامے کا حصہ بنتی ہے ، محض مغرب کی نقالی میں اور دوسرے ہی دن یہ خبر پرانی ہو کر ردی میں بک جاتی ہے ۔قارئین حقوق نسواں بل کو پاس ہوئے سالوں گزر گئے ، مگر اس کے باوجود ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی80فیصد عورتیں اب بھی کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں۔ تشدد کی ایک بدترین شکل جنسی طورپر انہیں ہراساں کرنا ہے ، جس کے واقعات دفاتروسڑکوں اور ہر اس جگہ پر رونما ہو رہے ہیں جہاں عورتیں کام کے حوالے سے موجود ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں عورتوں سے ریپ، گینگ ریپ ، معصوم بچیوں سے زیادتی اور بعدازاں بے دردی سے انہیں قتل کردینے کے واقعات میں بھی اضافہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ابھی ہمارا معاشرہ، عورت کے لیے اتنا ہی غیر محفوظ ہے ، جتنا آٹھ مارچ جیسے عورتوں کے حقوق کے لیے مقرر کردہ دنوں سے پہلے تھا۔
یہاں میں ایک سوال ارباب اختیار ،خادم اعلیٰ ،آرمی چیف اور خاص طور پر تمام صحافتی تنظیموں کے کرتا دھرتا افراد کے کرنا چاہتا ہوں اور ان کو یاد کروانا چاہتا ہوں کہ ہماری ایک صحافی ساتھی جس کا نام بھی شاید ان لوگوں کو اب یاد نہیں ہو گا جی میں ”زینت شہزادی“ کی بات کر رہا ہوں وہ بھی ایک خاتون تھی جسے دن دیہاڑے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خفیہ اہلکاروں نے بھرے بازار میں سے اٹھایا جس کا آج تک پتہ نہیں کوئی ہے اس عالمی دن پر اس خاتون صحافی کا نام لے کر آواز اٹھانے والا،یقیناً نہیں کیونکہ اگر اس کا نام لیا تو شاید ان لوگوں کو بھی کسی سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ جائے۔افسوس صد افسوس ہماری بہت سی خواتین جابر ایم این ایز اور ایم پی ایز، وڈیروں اور سیاسی لوگوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
حقوق نسواں بل جسے عورت کا حفاظتی حصار کہہ کر متعارف کروادیا گیا تھا ۔ اس کے بعد دیکھنے میں آیا ہے کہ اس بل سے صرف گھروں سے بھاگی ہوئی لڑکیاں ہی مستفید ہوتی ہیں ۔ گھروں میں رہ کر جبر برداشت کرنے والی عورتوں کو اس بل نے کوئی آسانی نہیں دی ۔
ان حالات میں یہ سوال اپنی سنجیدگی اور چبھن کے ساتھ ہمارے سامنے ہے کہ آج کی عورت سماج سے اپنے حقوق کے حوالے سے آخر چاہتی ہے کیا ہے ؟ عزت نفس ، شناحت، وراثت میں حصہ، معاشرے میں مردوں کے مساوی درجہ ، پسند کی شادی کا اختیار، مرضی سے زندگی گزارنے کا اختیار؟ خاندان، قبیلہ، مذہب، مسلک، فرقوں اور رسم ورواج کی وجہ سے ہمارے چاروں صوبوں میں چند بڑے مسائل کو چھوڑ کر عورتوں کے مسائل کی شکلیں ہر جگہ الگ الگ ہیں ۔
مثلاً کہیں عورت کو ملازمت کرنے کا حق چاہیے اور کہیں تعلیم حاصل کرنا اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ کہیں وہ قبائلی نظام سے چھٹکارا چاہتی ہے اور کہیں بے جا معاشرتی پابندیوں سے ۔ کہیں اسے مذہب کے نام پر روا رکھنے جانے والے جبر سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے ، کہیں وہ خاندان کو اپنا تحفظ سمجھتی ہے اور کہیں اپنی ترقی کے راستے کی ر کاوٹ۔ ان ضمنی مسائل میں اس کے حقیقی مسائل کی آواز دب کر رہ گئی ہے جو کاروکاری ، غیرت کے نام پر قتل، وٹے سٹے اور زبردستی کی شادیوں کی شکل میں اب پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہوچکے ہیں، بلکہ میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ میڈیا پر دکھائی جانے والی عورت کی شناخت جو محض کموڈٹی ، یا بطور جنس کے سامنے آرہی ہے ، وہ بھی اتنی ہی گھمبیر ہے جتنے کہ دیگر مسائل ۔ ان پیچیدہ سوالوں کے درمیان اگر عورت کی شناخت معلوم کرنا چاہیں تو اس ٹکڑے ٹکڑے تصویر کائنات کے سبھی رنگ مدھم اور نقوش بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ ریموٹ اور دیہی علاقوں کی عورتوں سے بیچ تھری کی عورتوں تک ، یہ تصویر نہایت بگڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ جس کے اندر عورت کے اصل حقوق اور حقیقی شناخت جیسے گم ہو چکی ہے ۔ دو انتہائیں ہیں ۔ جن کے درمیان ہماری آج کی عورت پھنسی دکھائی دیتی ہے ۔ ایک انتہا قدامت پسندی کی ہے اور دوسری جدت پسندی کی ۔ جسے میل ڈومینیٹنگ معاشرے نے عورتوں کو قابو میں رکھنے اور اپنے مطابق چلانے کے لیے اختیار کر رکھا ہے ۔ یہ صدیوں پرانی سوچ ہے جو اکیسویں صدی میں بھی اسی طرح موجود ہے ، جس طرح ان پرانی صدیوں میں تھی، جب عورتیں منڈی میں خریدوفروخت کے لیے سجائی جاتی تھیں، بس فرق صرف اتنا ہے کہ اب اس خریدوفروخت اور جبرواختیار کے معاملے کوبظاہر عورت کے ہاتھ میں دے دیاگیا ہے مگر درحقیقت اسے چلایا اسی طرز پر جارہا ہے ، جیسے پہلے چلایا جاتا تھا ۔ تعلیم، ترقی اور جدید تراش خراش کا لباس پہن کر ، بظاہر، ایک طبقہ کی عورت جو مرد کے شانہ بشانہ چلتی دکھائی دیتی ہے،اس پرکب زمین تنگ کرنی ہے اور کب اسے ہراساں کرکے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے ، یہ سب اب بھی معاشرے میں اسی طرح ہورہا ہے ، قندیل بلوچ کی مثال ہمارے سامنے ہے ، بس فرق یہ ہے کہ اب عورت کو تھپک کر یہ جتایا جاچکا ہے ”بی بی “ اپنے معاملات میں خود مختار ہو ۔ اپنے پاﺅں پر کھڑی ہو ۔ اپنی مرضی کی مالک ہو ۔ مگر یہ مرضی اور خود مختاری کتنی محکوم ہے،اسکا پتا اس وقت چلتا ہے جب مرد کے بنائے دائروں سے عورت باہر نکلنے کی پہلی کوشش کرتی ہے ، وہیں اس کے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جاتی ہے اور اسے بتا دیا جاتا ہے کہ وہ کتنی خود مختار ہے اس محکوم عورت کا جس کا دن آج دھوم دھام سے منایا جارہا ہے ، اب بھی یہ حال ہے کہ قبائلی علاقوں میں اسے ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں۔ دیہی علاقوں میں مرد اسے خاندانی منصوبہ بندی کی بھی اجازت نہیں دیتا ، نتیجتاً وہ دھڑا دھڑ بیمار اور کمزور بچے پیدا کرتی ہے اور زچگی کی پیچیدگیوں سے گزرتی مرجاتی ہے۔ دیہات میں زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی شرح دیکھ کر عورت کے مقدر سے خوف آتاہے ، جسے مرد اپنے ہاتھ سے لکھتا ہے ۔ ونی ہوکر باپ کی عمر کے مرد کے نکاح میں آتی ہے اور عمر بھر سسرال کے جوتے کھاتی مر جاتی ہے۔ یہی عورت آج کا میڈیاد کھاتا ہے اور ریٹنگ حاصل کرتاہے ۔ عورت پر جتنا زیادہ تشدد ہوگا اتنی ر یٹنگ ملے گی ۔ روتی گڑگڑاتی ، ساس نندوں اور شہروں کی ماریں کھاتی یہ عورت ، میڈیا پر بک رہی ہے ۔ نہ ہمارے ڈراموں کے موضوعات بدلے ہیں نہ زندگی کے ۔ رہا سوشل میڈیا تو اس پر ان دنوں جنسی اور جسمانی تشدد کاشکار ، ایسی ایسی ”شاہکار “ ویڈیوز جاری ہورہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔اگر یہ ویمن ڈے کا خصوصی تحفہ ہے تو خدارا اسے بند کیا جائے ،تشدد کے فروغ کا یہ طریقہ نہ صرف غلط ہے بلکہ ظالمانہ بھی ہے ، نجانے کس طرح کے لوگ اس سے ”لطف اندوز“ ہوتے ہوں گے ۔ اکیسویں صدی کی یہ مار کھاتی ، ظلم سہتی عورت دیکھ کر آج سے ایک صدی قبل شروع ہونے والی عورتوں کے حقوق کی عالمی تحریک کا خیال آتاہے ، جسے 1913ءمیں عورت کو معاشرتی جبر سے آزاد کرانے کے لیے شروع کیاگیا تھا ۔ جس کے نتیجے میں مغرب کی عورت ضرورت سے زیادہ آزادی حاصل کرکے اب اس انتہا پر پہنچ گئی ہے جہاں آگے جانے کے راستے مسدود ہوچکے ہیں ۔ چنانچہ اب اس کی واپسی کا سفر شروع ہے ، مگر ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے ، ہماری عورت ابھی حقو ق کے نام پر ناخواندگی ، وراثت سے محرومی، گھریلو ظلم وتشدد، جنسی ہراسانی، جنسی تشدد، کام کرنے کی اجازت وغیرہ جیسے بنیادی مسائل میں پھنسی ہوئی ہے ۔ جاہل، نیم خواندہ اور محروم طبقات کی عورتیں تورہیں ایک طرف ، میں متذکرہ بلا مسائل کاشکار پڑھی لکھی خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جو اعلیٰ ملازمتوں کے باوجود شوہروں کی مار پیٹ، گالی گلوچ اور بے وفائی برداشت کرتی ہیں اور اپنے بھرم بچاتی ہیں ۔
یہ بھرم بچاتی اور تشدد سہتی عورت، عورتوں کے حقوق کے عالمی دن سے کیا حاصل کرسکتی ہے؟ چند جوشیلی تقریریں، تالیاں، میڈیا ستائشی پروگرام ، اقبالؒ کی شاعری کے ٹکڑے ؟ اس کے بعد آٹھ مارچ کی رسمیں پوری ہوجائیں گی، اسے ردی میں ڈال دیں۔ سال کے باقی دن مرد کے دن ہیں۔کیلنڈر بھی یہی بتاتا ہے اور کیلنڈر سے اٹھ اٹھ کر زندگی کا حصہ بننے والے دنوں کی تاریخ بھی ۔ حقوق وفرائض کی دنیا میں مساوات کا کردار ابھی لکھا ہی نہیں گیا ۔ عورت کو جتنا چاہے گاڑی کا دوسرا پہیہ کہہ لیں ، جب تک اس پہیے کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، عورت کو بطور انسان خدا کی مخلوق نہیں مانا جائے گا ۔ اس کے بنیادی حقوق اسے لوٹائے نہیں جائیں گے ۔ چاہے سارا سال 8مارچ منالیں مسائل جوں کے توں رہیں گے ، مائنڈ سیٹ بدلے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہونے والا ۔