یہ کس کا حسین حقانی ہے ؟
پاکستان کی سیاست میں چند انتہائی غیر معتبر افراد میں سے ایک حسین حقانی نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں دیے حالیہ مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی سی آئی اے کو ان کی کوششوں سے اسامہ بن لادن تک رسائی ملی اور پاکستانی انٹیلی جنس کے تعاون کے بغیر انہوں نے اسامہ بن لادن کا کھوج لگا لیا ۔ اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی کی ترجمان سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ حسین حقانی کا موقف غلط ہے ۔ پیپلزپارٹی نے سی آئی اے کو کسی کارروائی کی اجازت نہیں دی تھی ۔ ان کا یہ دعویٰ درست ہے کہ ہمارے ہی دور میں شمسی ائیر بیس واپس لیاگیا تھا تاہم وہ یہ غلط کہہ رہی ہیں کہ انٹیلی جنس افسروں کو ویزے نہیں دئیے گئے ۔ کیونکہ پیپلزپارٹی اور حسین حقانی ہی کے دور میں سب سے زیادہ امریکی ایجنٹ پاکستان آئے ۔ بہر حال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حسین حقانی ایک ایسا باب ہے جس پر کبھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔ اسامہ بن لادن سے متعلق جو دعویٰ امریکی کرتے ہیں کہ انہوں نے وہاں آپریشن کیا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسامہ بن لادن کو قتل کرکے میت ساتھ لے گئے، ایک بجے رات سے صبح کے5بجے کے درمیان 4 گھنٹے میں آپریشن ، فائرنگ، مقابلہ، گرفتاری، لاش لے جانا، ڈی این اے کرنا، لاش کو پلاسٹک یا کسی چیز میں لپیٹ کر بحیرہ عرب تک لے جانا اور ڈبونا ۔ جب کہ دعوے کے مطابق پہلے ایبٹ آباد سے ہیلی کاپٹر افغانستان گئے تھے اگر اس کا جائزہ لیں تو یہ دعویٰ ہی غلط نظر آتا ہے ۔ عینی شاہدین کا اس وقت کا بیان تھا کہ کوئی ہیلی کاپٹر زمین پر اترا ہی نہیں ۔ ایک تباہ ہوا اور دوسرا ایک جانب سے آیا اور چلا گیا ۔ جب تک یہ تصدیق نہیں ہوجاتی کہ ایسا واقعہ ہوا بھی تھا کہ نہیں اس وقت تک کسی بات پر تبصرہ ہی بے معنی ہوگا ۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ حسین حقانی خود کہہ رہے ہیں کہ اوباما حکومت میں ان کے کچھ دوست اہم مناصب پر پہنچے تو انہوں نے ان کی مدد سے سی آئی اے کے لیے مذکورہ منصوبہ بنایا تھا ۔ لگتا ہے کہ حسین حقانی اب بھی اوباما کی حکومت کے اہم مناصب والے افسران کی نمک حلالی پر مامور ہیں ۔ اس لیے ایسا مضمون لکھ کر وہ اوباما حکومت کے اس دعوے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس نے اسامہ بن لادن والا آپریشن کیا تھا ۔ اس طرح ایک طرف اوباما حکومت میں اپنے دوستوں کو بھی خوش کررہے ہیں ، دوسری طرف پاکستانی حکومت اور پاک فوج کو بھی مطعون کررہے ہیں ۔ ان کی اس کوشش پر یہی خیال ذہن میں آسکتا ہے کہ اپنا نام بھی کسی کارنامے میں ڈلوانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اگر حسین حقانی کی بے اعتباری کا اعتبار کرنا ہو تو ان کے سیاسی سفر پر ایک نظر ڈالی جاسکتی ہے ۔ وہ ابتدائی طور پر اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن تھے اور اسی مناسبت سے جامعہ کراچی کی طلبہ یونین کے صدر بھی بنے ۔ اس وقت وہ امریکا اور امریکیوں کے مخالف تھے ۔ پھر اچانک فار ایسٹرن اکنامک ریویو کے حسین حقانی نمودار ہوئے اور کسی طرح وائس آف امریکا کے حسین حقانی بن گئے ۔ پھر کہیں غائب ہو گئے ۔ کچھ عرصے کے بعد نظر آئے تو میاں نواز شریف کے حسین حقانی تھے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زمانہ طالب علمی اور1977ءکی تحریک کے دوران وہ ذوالفقار علی بھٹو کو گھاسی رام ثابت کرنے کے لیے دو دو گھنٹے تقریر کرتے تھے لیکن حالات نے پلٹا کھایا تو وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکرٹری اطلاعات بن گئے ، پھر وفاقی سیکرٹری اطلاعات بھی رہے اور اسی گھاسی رام کی بیٹی کے ملازم بنے رہے ۔ جس کے خلاف1988ءکی انتخابی مہم کے روح رواں تھے ۔ صرف اس مختصر سی تاریخ کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ کوئی ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔ وہ جس کے ساتھ رہے اسے بھی ان پر اعتبار نہیں ۔ امریکا میں پاکستانی حوا کی بیٹی عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے ان کی و الدہ سے جس قدر جھوٹے وعدے حسین حقانی نے کیے کسی اور نے نہیں کیے ۔ لہٰذا حسین حقانی کی جانب سے کسی اعتراف کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ۔اگر حقانی کو سامنے رکھا جائے تو امریکی سی آئی اے کا طریقہ کار ایسا ہے کہ اس کو کسی آپریشن کے لیے اجازت دینے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ اسامہ بن لادن کے حوالے سے آپریشن کے لیے بھی امریکی سی آئی اے یا امریکی افواج کو کسی اجازت کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جنرل پرویز اس کی باضابطہ اجازت پہلے دے چکے تھے اور اس کا برملا اظہار امریکی خصوصی ایلچی برائے افغانستان رچرڈ ہالبروک نے بھی کردیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف ڈرون حملوں کی اجازت دے چکے ہیں ۔ امریکا کو جب سعودی عرب میں افواج اتارنی تھیں تو اس نے الخبر کمپاﺅنڈ میں اپنے فوجی پہنچا دیے تھے اس کے بعد اجازت لی یا اطلاع دی تھی ۔ جب افغانستان پر پہلا حملہ کیا تھا تو پاکستانی بحری حدود سے اپنے کروز میزائل داغے تھے اس کی اجازت نہیں لی تھی ۔ کچھ میزائل پاکستان میں بھی گرے تھے جن پر اس کا موقف تھا کہ یہ دوستانہ میزائل تھے ۔ لہٰذا حسین حقانی کا یہ موقف بھی غلط ہے کہ ان کی کوششوں سے ایسا کوئی کام ہوا ہے ۔ حسین حقانی تو ایسے کام میں اپنا کارنامہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے بارے میں ابھی تک شبہات ہیں ۔ کہ یہ واقعہ ہوا بھی تھا کہ نہیں ۔ جس زمانے میں یہ امریکا میں پاکستان کے سفیر تھے اس وقت پاکستان میں ان کے بارے میںبھی کہا اور لکھا جاتا تھا کہ امریکا میں امریکی سفیر برائے پاکستان ”حسین حقانی“ ۔ آج بھی ان کی حرکتوں اور بیانات کی روشنی میں لوگ یہی سوال کررہے ہیں کہ یہ کس کے حسین حقانی ہیں ۔ پاکستان کے یا امریکی مفادات کے۔