Tayyab Mumtaz

چائلڈ لیبر اورکمسن ملازم بچوں پر تشدد

ہمارے ملک پاکستان میں غریب اور اس کے بچوں کی زندگیاںایسے ہی ہیں جیسے کسی تیسری دنیا کے رہنے والے افراد کی ۔ یہ ایسے الفاظ ہیں جن کو لکھتے ہوئے اور سوچتے ہوئے میں جس قرب سے گزررہا ہوں اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔چونکہ میں ایسے لوگوں کے بہت قریب رہا ہوں میرے علاقے میں بہت سے ایسے بچے اور بچیاں لوگوں کے گھروں میں ورکشاپس اور دکانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔بہت سے ایسے بچے ہیں جو کہ سکول کی شکل صرف اسی لیے نہیں دیکھ پاتے کہ ان کے والدین ان کی فیسوں،کتابوں اور دوسرے اخراجات پورے نہیں کرسکتے۔دو وقت کی روٹی پوری کرنا غریب آدمی کے لیے مشکل ہے۔
پاکستانیوں کا ایک المیہ ہے کہ یہاں بسنے والے لوگ چاہئے وہ کتنے ہی پڑھے لکھے قانون دان کیوں نہ ہو ں وہی قانون توڑتے ہیں کچھ عرصہ پہلے بھی اسلام آباد میں ایک ایڈیشنل جج کے گھر میں ایک کمسن بچی کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کا کیس ابھی تک سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اور نہ جانے کب تک چلتا رہے گا اب پھر اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج کے گھر میں کم عمر ملازمہ پر تشدد کا ایک اور کیس سامنے آیا ہے ۔ اس کیس میں پولیس نے مقدمہ درج کرکے گھر کے مالک اور اس کی والدہ کو گرفتار کرلیا جبکہ بچی کو دارالامان بھجوادیاگیا ، گھر کے مالک اور اس کی والدہ نے عدالت سے ضمانت کرالی جس کے بعد انہیں رہا کردیاگیا ۔ اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں متاثرہ 12سالہ بچی گزشتہ چار سال سے گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کررہی تھی ، بچی پر تشدد کے نتیجہ میں اس کی چیخ وپکار پر ہمسائے نے پولیس کو اطلاع دی جس نے بچی کو تحویل میں لیا ، رحیم یارخان کی اس بچی کے والدین کو بلوایاگیا ، بچی نے بیان دیا کہ نہ صرف اس پر گھر کے رہنے والے افراد خانہ تشدد کرتے تھے بلکہ ان کی ایک ملازمہ بھی اسے زدوکوب کرتی رہتی تھی ۔ بچی پر گرم چھریوں کے ذریعے تشدد کرنے کے علاوہ اس کے سر کے بال بھی مونڈ دئیے گئے تھے ۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دو اہل خانہ کو گرفتار کیا ۔ ملزموں نے ضمانت کے بعد رہائی حاصل کرلی ۔ اسلا م آباد میں ایڈیشنل سیشن جج کے گھر پر کمسن طیبہ پر تشدد کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا جس میں اس کے والدین نے صلح کرلی تھی ، تاہم سپریم کورٹ کے نوٹس لینے پر اور بچی کو عدالت عظمیٰ میں طلب کرنے اور بیان لینے پر عدالت عظمیٰ نے کارروائی کرنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد اس کے وا لد نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ میں اس نے دباﺅ پر بیان دیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے اسے دوبارہ طلب کیا اور مقدمہ چلانے کا دیا ۔ اس کے بعد ماتحت عدالت میں مقدمہ میں صلح کی درخواست دی گئی جس پر عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے اس کیس کے بارے میں تفصیلات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنے کا حکم دیا ۔ ملک میں کمسن اور نو عمر گھریلو ملازم بچوں پر تشدد اور کچھ شہروں میںان ملازم بچوں کی جان لینے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں مگر ابھی تک اس سمت میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیاگیا ۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا بارہ تیرہ سالہ بچوں کو ملازم رکھا جاسکتا ہے ، ملک میں ملازمین کے لیے عمر کی حد کم از کم اٹھارہ برس ہے ۔ بارہ تیرہ سالہ بچوں اور بچیوں کو ملازم رکھ کر ان سے نہ صرف گھریلو کام کرائے جاتے ہیں بلکہ انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ کئی کیسوں میں انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے ، پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن کا ادارہ بھی موجود ہے مگر گھریلو کمسن ملازم بچوں کے معاملے میں کوئی اقدامات ہوتے نظر نہیں آتے ۔ حکومت، محکمہ بہبود آبادی اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو اس حوالے سے قوانین کو سامنے رکھ کر گھریلو ملازم بچوں کے بارے میں صورتحال کو واضح کرنا چاہیے۔ بااثر اور امیر افراد اس میں جو منفی کردارادا کررہے ہیں اس کی روک تھام کرنا حکومت کا کام ہے ۔ حکومت کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ پاکستان میں بہت سی این جی اوز بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے کی دعوے دار ہیں جو ایسا کوئی معاملہ سامنے آنے پر تو بڑھ چڑھ کر بیان دیتی ہیں مگر اس حوالے سے متعلقہ محکمہ اور حکام سے اس مسئلہ کے مستقل حل اور اس کی روک تھام کے حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کررہیں ۔ ہمیں دو عملی چھوڑکر حقائق کے مطابق اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیے اس بارے میں موثر قانون ہونا چاہیے اور قانون پر عملدرآمد کے لیے مستعد مشینری اور اس مشینری اور عمل درآمد کا جائزہ لینے کے نگرانی کا مستند نظام ہونا چاہیے ۔ ملازم بچوں پر ظلم کرنے والوں کے خلاف حکومت کی کارروائی کے علاوہ معاشرتی دباﺅ بھی ہونا چاہیے۔ ہمارے علماءکو اس ضمن میں کردارا ادا کرنا چاہیے تاکہ اس لعنت کا خاتمہ ہوسکے ۔
میں یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے ایسے والدین کو سزا دی جائے جو اپنے کمسن بچوں کو چند ٹکوں کی خاطر لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ایسے والدین جو اپنے بچوں کو سکول میں داخل نہ کروا سکتے ہوں حکومت کو چاہئے کہ ان بچوں کے لیے سکولز میں اضافہ کیا جائے تا کہ ہر بچہ بنیادی تعلیم حاصل کر سکے۔دانش سکولوں اور دوسرے بھٹہ مزدور بچوں کی طرز پر ایسے بچوں کو بھی ماہانہ وظیفہ دیا جائے تا کہ ان کے والدین ان کو کام کی بجائے سکول بھجوا سکیں ۔یہ ذمہ داری حکومت کے ساتھ ساتھ ہر محب وطن پاکستانی کو نبھانی ہو گی ۔ایسے لوگوں کو شعور دلائیں کہ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں ان کے ہاتھوں میں اوزار،جھاڑو کی بجائے کتاب اور قلم ہونا چاہئے اور دوسری طرف ہمارے امیر طبقہ کو بھی سوچنا چاہئے کہ یہ بچہ یا بچی بھی انسان ہیں جیسے ہم اپنے بچوں کو نازو ں سے پالنا چاہتے ہیں پڑھانا چاہتے ہیں ان کی تعلیم بھی ہم پر بحیثیت انسان اور مسلمان فرض ہے۔
ہمارے ارباب اختیار،قانون بنانے والے،قانون کی کتابیں لکھنے اور ان کی تشریح کرنے والے ہی اگر ان قوانین کو اس انداز میں توڑتے رہے تو شاید زندہ قوموں میں ہمارا کہیں کوئی شمار نہیں ہو سکے گا،خدارا احساس انسانیت اپنے اندر پیدا کریں اور ان بچوں کو بھی اپنا بچہ سمجھیں جو آپ کے پاس کام کی غرض سے پہنچا ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button