آرمی چیف کو ایسا ہی کرنا چاہیے
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خوش خبری سنائی ہے کہ جنرل باجوہ جمہوریت کے سا تھ ہیں ۔ عمران خان نے ہفتے کے روز پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایک گھنٹے تک ملاقات کی اور قوم کو خوش خبری سنائی ۔ ساتھ ہی انہو ںنے یہ بھی بتایا کہ پاکستان گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ اب تک کے پی کے میں80کروڑ درخت لگائے جاچکے ہیں ۔ بہت جلد ایک ارب کی تعداد پوری ہو جائے گی ۔ حالانکہ یہ خبر خود سیاسی وارمنگ کا سبب بنی ہے ۔ عمران خان نے ٹمبر مافیا کو بھی چیلنج کیا کہ اس سے خوفزدہ نہیں ۔ ہم نے ان سے22ارب روپے کی 60ہزار کنال زمین واپس لی ہے ۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ہمیں ملک کے مستقبل کے لیے سوچنا ہوگا ۔ پاکستان میں آرمی چیف سے ملنا اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے بات کرنا کوئی انہونی اور نا مناسب بات نہیں ہے ۔ ملک کے ہر سیاست دان کو اسی طرح آرمی چیف سے ملنے کا حق حاصل ہے جس طرح وزیراعظم، صدر اور دیگر حکمرانوں، وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کو یہ حق حاصل ہے ۔ لیکن عام طور پر آرمی چیف یہ شرف حکومت کے باہر کے کم ہی سیاست دانوں کو دیتے ہیں ۔ عمران خان اس حوالے سے خصوصی اعزاز رکھتے ہیں کہ ان کی سابق آئی ایس آئی چیف اور سابق آرمی چیف سے ملاقاتوں کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بن چکی ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اس حوالے سے ریکارڈ پر اطلاعات ملی ہیں ۔ عمران خان نے خود اس کا اعلان کیا ہے لیکن ایک بار پھر دھرنوں والے دور کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ آرمی چیف سے آج کل ملاقات کی کیا ضرورت تھی ۔ کئی تجزیہ نگاروں نے اس ملاقات کے وقت پر حیرت اور استعجاب کا اظہار کیا ہے ۔ خود تحریک انصاف کے رہنما حامد خان نے کہا کہ اس ملاقات کو بڑی خبر نہیں ہونا چاہیے لیکن کیا کریں یہ حقیقت ہے کہ یہ ایک بڑی خبر ہے اور ہر اعتبار سے بڑی خبر ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ ملاقات یکطرفہ نہیں تھی ، محض عمران خان کی خواہش پر نہیں ہوسکتی تھی ۔ خواہش تو بہت سے لوگ کرتے رہتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر پا کستانی قوم کی دکھی ماں عافیہ صدیقی کی بوڑھی والدہ اور بہن جنرل راحیل سے بھی ملنے کی درخواستیں کرتی رہیں اور موجودہ آرمی چیف سے بھی درخواستیں کرتی رہیں لیکن یہ ملاقات نہیں ہوسکی ۔ عمران خان میں آخر کوئی تو خوبی ہے کہ انہیں ہر آرمی چیف بلا لیتا ہے جس طرح آرمی چیف سے ملنے میں کوئی قباحت نہیں اسی طرح یہ سوال یا یہ خوش خبری بھی کوئی خبر نہیں ہونی چاہیے کہ آرمی چیف پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ ہیں ۔ انہیں ایسا ہی ہونا اور کرنا چاہیے تھا ۔ عمران خان کے اس اعلان اور خوش خبری کے انداز سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ وہ کوئی اور سوال لے کر گئے تھے اور ٹکا سا جواب واپس لے کر آئے ہیں کہ فوج جمہوریت کے ساتھ ہے ۔ ان کے اعلان سے ایسا لگ رہا ہے کہ انہو ںنے سوال کیا تھا کہ جنرل صاحب موجودہ جمہوریت کے ساتھ ہیں ؟؟ اور انہیں جواب ملا کہ جاﺅ جاکر درخت لگاﺅ ۔ پاکستان میں فوج اور حکومت کافی عرصے سے یہ بتا رہے ہیں کہ قومی امور پر دونوں ایک ہی موقف رکھتے ہیں ۔ خصوصاً دہشت گردی کے خلاف دونوں کا موقف ایک ہے ۔ یہ درست ہے کہ طاقت کا مرکز فوج ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں آئینی اور جمہوری طور پر سارے کام حکومت اور پا رلیمنٹ کے ذریعے ہو رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ فوجی عدالتو ںکے قیام میں توسیع کا معاملہ بھی پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت فوج کی تمام ضروریات پوری کررہی ہے اور دفاعی اہمیت کے اعتبار سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے تو پھر یہ سوال پیدا کب ہوا کہ جنرل باجوہ جمہوریت کے ساتھ ہیں یا نہیں ۔ بالفرض جنرل باجوہ جمہوریت کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر وہ اس کی اطلاعات عمران خان کو اکیلے میں نہیں دیتے بلکہ پوری دنیا دیکھ لیتی کہ جنرل باجوہ جمہوریت کے ساتھ نہیں ہیں ۔ پاکستان میں نے جب بھی کوئی اقدام کیا ہے کسی سیاسی رہنما کو اطلاع دے کر اقدام نہیں کیا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی ملاقات اور ان کے اعلان میں یہ خوش خبری ضرور ہے کہ جنرل باجوہ نے جمہوریت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ سنایا ہے ۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی تشویش کی بات ہے کہ اس نازک مرحلے میں جب پانامہ کیس کا فیصلہ کسی بھی دن آنے والا ہے ملک میں سیاسی بحران کے امکانات اور خدشات ہیں ، عمران خان پاک فوج کے سربراہ سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے ۔ کسی نے یہ تجزیہ بھی کیا ہے کہ دوسرے رہنماﺅں کو بھی شاید جنرل صاحب سے ملنے کا حوصلہ ہو لیکن کیا اپنے ہی جنرل سے ملاقات کرنے کے لیے بھی حوصلے کی صرورت ہوتی ہے ؟ یہ وقت ایسا ہے کہ تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرے میں رہنا چاہیے ۔ حکومت نے بھی اپنے چار سال کسی نہ کسی طرح تقریباً پورے کرہی لیے ہیں ۔ اگر سیاسی قوتیں ملک میں سیاسی اور جمہوری نظام جاری رکھنا چاہتی ہیں تو انہیں آنکھوں اور کان کے ساتھ ساتھ دل ودماغ بھی کھلا رکھنا ہوگا ۔ ایک کی ہار دوسرے کی جیت ضرور ہوتی ہے لیکن ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں سب کی ہار ہو جائے ۔