Tayyab Mumtaz

اختلافی نوٹ کی سیاست اور پاکستان!!!

پاکستان میں پہلی مرتبہ عدالتی فیصلے کے نفاذ سے قبل ہی اس کے اختلافی نوٹ کو سیاست کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی والے اختلافی نوٹ پر کئی سال بعد سیاست کی گئی تھی لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی قوت عدلیہ کی وقعت کو کم کرنے کیلئے ایک منظم طریقے سے اختلافی نوٹ کو اصل فیصلہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ فیصلہ آتے ہی سوشل میڈیا پر طنزیہ جملوں اور لطیفوں کی بھرمار ہو گئی تو ساتھ ساتھ ٹی وی ٹاک شوز میں بھی اختلافی نوٹ ہی کو اصل فیصلہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے نتیجے میں وہی ہوا جو ہوتا ہے۔ یعنی سیاسی رہنماﺅں نے بھی عدالت کے اختلافی فیصلے ہی کو اصل فیصلہ ثابت کر کے میاں نواز شریف سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ عدالتوں کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ سارے سیاست دان جانتے ہیں کہ تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود اس عدالتی نظام میں اگر کوئی فیصلہ ہو گیا تو اس سے اختلاف کا ایک طریقہ کار متعین ہے۔ ٹی وی ٹاک شویا جلسہ عام سے یہ اختلاف آپ کی مرضی کے فیصلے میں تبدیل نہیں ہو جائے گا۔ تین دن میں اتنا شور اٹھا کہ چوتھے دن چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو کہنا پڑ گیا کہ اختلافی نوٹ پر جیسا شور پاکستان میں ہے کہیں نہیں ہوتا۔ یہ کام تو وکیلوں کا ہے کہ وہ تلاش کریں کہ اختلافی نوٹ پر کہاں کہاں کیا ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اختلافی نوٹ پر غیر ضروری بحث ہو رہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس کی برہمی بجا ہے۔ اگر اس فیصلے سے اختلاف ہے تو اس پر اپیل کی جائے نہ کہ اسے ٹاک شو اور جلسوں کا موضوع بنا لیا جائے پھر تو پاناما کیس عدالت میں لے جانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ٹاک شو اور جلسوں میں ہی فیصلہ کرا لیتے۔ چیف جسٹس نے اس حوالے سے درست توجہ دلائی ہے۔ عدالت کا احترام سب کو کرنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں تو حد ہو گئی سوشل میڈیا تمام حدیں پار کر گیا ہے ایسا تاثر دیا جارہا ہے جیسے عدالت نے کوئی فیصلہ دے دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سامنے جو ممکن راستے تھے اس نے ان ہی میں سے ایک اختیار کیا ہے اگر ساری توجہ اب جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کی موثر کارکردگی پر صرف کی جائے تو ممکن ہے لوگوں کی سمجھ میں عدلیہ کا فیصلہ بھی آجائے۔ چیف جسٹس نے یہ ٹھیک کہا کہ عدالت کے بارے میں بد اعتمادی ختم کرنا سب کی ذمہ داری ہے لیکن جناب چیف جسٹس، یہ ذمے داری سب سے زیادہ عدلیہ پر ہے۔ لہذا اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ چیف جسٹس کے بیان کے بعد ٹی وی ٹاک شوز اور جلسوں میں عدالت کے اختلافی نوٹ پر سیاست نہیں کی جائے گی۔مگر یہ مشکل ہوگا۔ دراصل اختلافی نوٹ پر سیاست مسئلے کو کہیں اور لے جائے گی۔ میڈیا کے روئیے کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں یہ بات پختہ ہوتی جائے گی کہ اصل فیصلہ وہی اختلافی نوٹ ہے اور اصل فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں جس کی وجہ سے جب آئین و قانون کے تحت معاملات آگے بڑھیں گے تو عوام کو مایوسی ہو گی۔ چیف جسٹس نے سیاست دانوں کو تنبیہہ کی ہے لیکن انہیں الیکٹرانک میڈیا کو بھی وارننگ دینی چاہیے۔ جس قسم کے ٹاک شوز وہاں ہو رہے ہیں وہ اداروں کے وقار کو متاثر کرنے اور ٹھیس پہنچانے والے ہیں۔ ان ٹی وی چینلز کے خلاف پیمرا تو کچھ نہیں کررہا، پیمرا کو اسلام،مسلمانوں کے خاندانی نظام نظریہ پاکستان اور علما کی تضحیک و توہین تو نظر ہی نہیں آتی۔ گزشتہ دنوں کبھی ایک اینکر کا پروگرام بند ہوتا تو کبھی دوسرے کا۔ یہ ساری جنگ محض چینلوں کی تھی اس سے عوام کے مفاد کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ بہر حال چیف جسٹس کی بات درست ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے اور یہ کام سب مل کر ہی کر سکتے ہیں محض سیاست دانوں پر ہی ذمے داری نہیں یہ عدلیہ کا بھی کام ہے اور میڈیا کو خود ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ریٹنگ کی جنگ میں بہت کچھ تباہ ہو سکتا ہے۔دوسری طرف کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی پانامہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے یہاں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہامرے جرنیلوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے قانون تو سب کے لیے ایک ہوتا ہے کیا امیر کیا غریب کیا جج کیا جرنیل ،کیا سیاستدان اور کیا صحافی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button