ہجوم کے انصاف کا خوف!!!
مردان یونیورسٹی میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آگیا۔ ابتدا میں تو ایسا لگا کہ یہ سارا کام دینی مذہبی طلبہ نے کیا ہے لیکن جوں جوں تفصیل سامنے آرہی ہے اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ ایک طالب علم مشعال کو کچھ طلبہ نے کمرے سے باہر نکال کر مار مار کر قتل کر دیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے۔ ابتدائی طور پر تو اے این پی اور پی ٹی آئی کے کچھ طلبہ کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی ہے لیکن اس معاملے میں بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ آگے چل کر لوگ بھول ہی جائیں گے کہ ہوا کیا تھا۔ تعلیمی اداروں میں قتل و تشدد اور قانون ہاتھ میں لینے کے واقعات اب کوئی انہونی بات نہیں لیکن اس مسئلے کو وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے جس شدت سے اٹھایا ہے اس نے بہت سے باب ایک بار پھر کھول دئیے ہیں۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ قوم متحد ہو کر مشال کے قتل کی مذمت کرے اور ان کی بیٹی مریم کہتی ہیں کہ ہجوم کا انصاف ذہنی پستی ہے۔ وزیراعظم نے نہایت مستحکم انداز میں تمام جرائم کی ذمے دار پولیس کا حکم دیا ہے کہ وہ ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائے۔وزیراعظم کہتے ہیں کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں سے کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ کوئی باپ اس خوف سے بچوں کو تعلیم سے محروم نہ کرے کہ اس کی لاش واپس آئے گی۔ وزیر داخلہ جن کی ذمے داری ہے کہ وہ ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں وہ کہتے ہیںکہ وحشیانہ قتل کو مذہب کے ساتھ جوڑنا قابل افسوس ہے۔ انہوں نے بغیر ثبوت کسی کو قتل کرنے کو ظلم کی انتہا اور سفاکیت قرار دیا ہے۔ انہیں فکر ہے تو صرف اس کی کہ عالمی سطح پر غلط پیغام گیا ہے۔ بظاہر یہ کسی تعلیمی ادارے کے طلبہ گروہوں کے اختلاف کا نتیجہ ہے لیکن وزیراعظم اس پر قوم سے متحد ہو کر مذمت کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جس روز قوم متحد ہو گئی اس روز یقینی طور پر آپ وزیراعظم نہیں رہیں گے۔دوسرے یہ کہ وزیراعظم کے بیان سے لگ رہا ہے کہ ان کے پاس ٹھوس ثبوت ہے کہ مشال کا کسی قسم کے توہین آمیز مواد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وزیراعظم نے کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر کسی کو سند کیسے دے دی۔ یہی بات مریم نواز سے پوچھنے کی ہے کہ انہیں ہجوم کا انصاف ذہنی پستی کیوں لگی ہے۔ وزیراعظم قانون ہاتھ میں لینے والوں کو قابل رعایت نہیں سمجھتے لیکن جن ہاتھوں میں قانون ہے وہ اسے استعمال ہی نہ کرے تو ایسے ہجوم ہی انصاف کریں گے۔ شاید ہجوم کے انصاف کا خوف حکمرانوں کو زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے گرد حصار کھینچ لیتے ہیں کوئی ان تک پپہنچ ہی نہیں سکتا پھر جب قانون بروئے کار نہیں لایا جاتا چھوٹوں کیلئے قانون، بڑوں کیلئے رعایت تو پھر ہجوم انصاف کرتا ہے اور ہجوم کا انصاف ایسا ہی ہوتا ہے اس میں انصاف کے تقاضے کوئی پورے نہیں کرتا۔ بلکہ لوگ محض فیصلہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم ان کی بیٹی اور وزیر داخلہ یہ جواب دیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جس چیز کا قانون موجود ہے وہ استعمال کیوں نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ توہین رسالت کا رنگ دے کر ہجوم پر ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ اس امر سے واقف تھی کہ کوئی نہ کوئی شکایت اس حوالے سے تھی اور شنید یہ بھی ہے کہ انتظامیہ نے ایک خط جاری کر کے تین طلبہ کے نام عام کر دئیے تھے۔ اگر ایسا ہی ہوا ہے تو یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی تفتیش میں شامل کیا جائے کہ اس نے اتنے نازک اور حساس معاملے میں کسی ثبوت کے بغیر نام افشا کر دئیے۔ یہ جو مریم نواز ہجوم کے انصاف سے خوف زدہ ہیں اور اسے ذہنی پستی قرار دے رہی ہیں یہ ان کی غلط فکر اور سوچ کا نتیجہ ہے۔ ذہنی پستی تو یہ ہے کہ قانون موجود ہے اس کا استعمال نہیں کیا جاتا۔قانون صرف کمزور کے لیے تھا چنانچہ کسی نے قانون ہاتھ میں لے لیا۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے لیکن ہمارے خیال میں قانون موجود ہونے کے باوجود قانون ہاتھ میں رکھے بیٹھے حکمرانوں کو کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ یہ لوگ قانون کا مذاق بناتے ہیں ان ہی کی وجہ سے عوام قانون ہاتھ میں لیتے ہیں۔ انہیں یہ فکر ہے کہ کوئی باپ ا پنے بچوں کو اس خوف سے تعلیم سے محروم نہ کرے کہ اس کی لاش گھر آئے گی لیکن کیا یہ صرف مردان میں ہوا ہے!! ان کے قریب بھی ایک فرد موجود ہے جو اپنے زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کے ناظم نواز خان کے قتل میں براہ راست ملوث رہا ہے۔ طلبہ کا مطالبہ تھا نواز کے بدلے نواز کا سر لیکن نہ صرف نواز خان کے قاتل بچ گئے بلکہ معزز قرار پائے۔ مریم نواز کو مشال خان کے قتل کی ویڈیو دیکھ کر صدمہ پہنچا۔ یہ مناظر تھے اگر ویڈیو بن جاتی تو مریم نواز یقیناً زیادہ صدمے سے دو چار ہوتیں جب 1969ءمیں اسلامی جمعیت طلبہ کے عبدالمالک کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں اسی طرح طلبہ نے گھیر کر مارا تھا ان کے ڈنڈوں اور لاٹھیوں میں کیلیں لگی ہوئی تھیں۔ قانون خاموش رہا۔ نواز خان کے سینے پر لاہورمیں غنڈے اچھلتے رہے ، قانون خاموش رہا، کراچی میں تو گزشتہ 30 برس میں درجنوں طلبہ لسانی دہشت گردی کا شکار ہوئے لیکن ان ہی لسانی دہشت گردوں کو میاںنواز شریف نے اپنا حلیف دل جان جگر سب کچھ بنایا۔ وزیر داخلہ کو صرف مشال کے قتل پر عالمی سطح پر غلط پیغام جانے کا افسوس ہے۔ کیا انہیں پاناما لیکس میں وزیراعظم ان کے بیٹوں، بیٹی اور کابینہ کے اہم افراد کے نام آنے کے باوجود سال بھر سے صرف ڈرامے بازی پر یہ خیال نہیں آیا کہ عالمی سطح پر کیا پیغام گیا ہوگا۔ ہاں یہ قتل وحشیانہ ہے لوگوں کو فیصلے کرنےکا حق نہیں۔ معلوم نہیں حقیقت کیا ہے کوئی تحقیق نہیں ہوئی لیکن وزیراعظم اس قتل کی مذمت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اگر واقعی معاملہ توہین رسالت کا تھا تو جو کچھ مشال کے ساتھ طلبہ نے کیا وہ حکومت کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام قانون تقاضے پورے کر کے کرنا چاہیے تھا لیکن اگر یہ معاملہ کچھ اور ہے تو پھر جن کے ہاتھ میں قانون ہے اور استعمال نہیں ہوتا ان کی ذمے داری ہے کہ بھر پور طریقے سے قانون کا استعمال کریں ورنہ اسی طرح لوگوں کے ہاتھوں قتل کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی خیبر پختونخوا سے اس کیس میں 36 گھنٹے میں رپورٹ طلب کر لی ہے اب کیس نے پلٹا کھانا بھی شروع کر دیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے ذمے دار نے اسسٹنٹ رجسٹرار کے دستخط سے جاری شدہ خط سے لاعلمی کااظہار کر دیا ہے۔ یوں معاملہ تبدیل ہو سکتا ہے لیکن دیکھتے ہیں 36 گھنٹے گزرنے پر کیا رنگ سامنے آتا ہے۔ بہر حال اس دفعہ یہ ضرور ہوا کہ سارے معاملے میں اے این پی اور پی ٹی آئی کے لوگ ملوث نکلے۔اگر توہین رسالت کا معاملہ ہے تو بھی غیرت ایمانی صرف مذہبی جماعتوں کی میراث نہیں ہے کسی کے ایمان نے بھی جوش مارا تو یہی نتیجہ سامنے آئے گا۔ اصل مشکل بے چارے الیکٹرانک میڈیا کی ہے جس کو مذہبی جماعتوں ، مذہبی جنونیوں کے نام پر اسلام کے خلاف کیچڑ اچھالنے کا موقع نہیں مل رہا۔