وزیراعظم کے بھارتی دوست کی مشکوک آمد
اس بات میں مسلم لیگ ن کے رہنماﺅں کے سوا کسی اور کو ذرا بھی شبہ نہیں کہ وزیراعظم نواز شریف اس وقت بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ پاناما مقدمے کا فیصلہ ان کا پیچھا کررہا ہے اور انہیں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں بھی جواب دہ ہونا ہے۔ اسی دوران میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان لیاقت علی المعروف احسان اللہ احسان کے انکشافات سامنے آگئے۔ ان کا اہم ترین پہلو پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بھارت اور اس کی ایجنسی را کا کردار ہے۔ اس کی سچائی میں پاکستان میں کسی کو ذرا بھی شک نہیں ہے کہ یہ حقیقت احسان اللہ کے اعتراف سے پہلے پاکستانیوں کے علم میں تھی اور را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس پر مہر تصدیق ہے لیکن اس صورتحال میں بھارت کے پر اسرار کردار سجن جندال کی پاکستان آمد اور مری میں نواز شریف سے ملاقات ایک ایسا معاملہ ہے جس کا شدید نقصان نواز شریف کو پہنچے گا۔ جندال کی آمد کو اتنا خفیہ رکھا گیا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کو اس کا علم نہ ہو سکا۔ جندال افغانستان سے پاکستان آیا جسے ایوان وزیراعظم کے ذریعے خصوصی اجازت نامہ دیا گیا اور اسے پولیس کی جانچ پڑتال سے مشتثنیٰ رکھا گیا۔ جندال کے ساتھ و دیگر افراد بھی آئے تھے۔وہ خصوصی طیارے میں پہنچا اور ہوائی اڈے پر وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز اور راحیل منیر نے استقبال کیا۔ پھر اس تین رکنی وفد کو خصوصی پروٹو کول میں مری لے جایا گیا، مری کی انتظامیہ اس گمان میں رہی کہ یہ پروٹو کول وزیراعظم کیلئے ہے۔ جندال کی پاکستان آمد اور نواز شریف سے ملاقات کو خفیہ رکھا گیا لیکن ذرائع ابلاغ میں یہ خبر آگئی تو اب وضاحتیں کی جارہی ہیں کہ جندال نواز شریف کا ذاتی دوست ہے اور کسی دوست کی آمد کی خبر تو نہیں بتائی جاتی۔ وزیراعظم کے وفا داروں میں سے ایک مصدق ملک نے دلیل دی کہ امریکی صدر جب کیمپ ڈیوڈ میں چھٹیاں گزارتے ہیں تو متعدد لوگ ان سے نجی ملاقاتیں کرتے ہیں۔ غالباً میاں نواز شریف امریکہ کے صدر نہیں پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور مری کیمپ ڈیوڈ نہیں۔ زور اس پر ہے کہ جندال میاں نواز شریف کا ذاتی دوست ہے اس نے میاں صاحب کا کھانا کھایا اور واپس چلا گیا وزیراعظم کی صاحبزادی کا کہنا بھی یہی ہے کہ جندال ذاتی دوست ہیں جبکہ صاحبزادے نے اس کی تردید کی ہے کہ وزیراعظم کی ان سے ذاتی دوستی یقیناً ہو گی کیونکہ دونوں میں پرانی یاری ہے۔ جندال ہی نے کھٹمنڈو میں نریندر مودی اور نواز شریف کی خفیہ ملاقات کرائی تھی جس کو بھارتی صحافی برکھادت نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا۔ جب نریندر مودی وزیراعظم کے مہمان بنے تھے تو ان کی آمد سے پہلے جندال پاکستان آگیا تھا۔ دوستی اپنی جگہ لیکن اس وقت جندال کی آمد اور نواز شریف سے خفیہ ملاقات کی خبر سے نواز شریف کو بہت نقصان پہنچے گا۔ کیا نواز شریف اتنے ناسمجھ ہیں کہ اس ملاقات کے منفی اثرات کا اندازہ نہیں کر سکے ۔ یا پھر وہ اپنے بارے میں بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی کہ بھارت سے ایک ذاتی دوست آیا اور کھانا کھا کر چلتا بنا۔ یہ سوالات تو اٹھیں گے کہ جندال کیوں آیا اور کیا کرکے گیا۔ ان قیاس آرائیوں کو نواز شریف کی پوری ٹیم بھی اپنی چرب زبانی کے باوجود نہیں روک سکتی کہ جب دو دن پہلے ہی احسان اللہ احسان نے پاکستان میں دہشت گردی میں را کے کردار کا انکشاف کیا اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو پاکستان کی قید میں ہے تو جندال بغیر کسی اعلان کے اچانک کیوں آیا۔ کہا جارہا ہے کہ وہ کلبھوشن کے معاملے پر نریندر مودی کا خصوصی پیغام لایا تھا جو نواز شریف کو ذاتی طور پر پہنچایا۔ یہ بات بھارتی ذرائع ابلاغ سے سامنے آئی ہے ۔ ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ارب پتی بھارتی تاجر جندال افغانستان سے لوہا پاکستان کے راستے سے لے جانا چاہتا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں اور باتیں تو ضروری بنیں گی۔ پی ٹی آئی نے سوال کیا ہے کہ نواز شریف بتائیں پاکستان کا دشمن جندال ان کا سجن کیوں۔ وزیراعظم پاکستان اور جندال میں تجارتی و کاروباری خبریں بھی ایک عرصے سے گرم ہیں۔ جندال بھارتی اسٹیبلشمنٹ سے بہت قریب ہے اور نریندر مودی اسے پیغام رسانی کیلئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ جندال کو را نے افغانستان میں فولاد کا بڑا ٹھیکا دلوایا۔ ان سب باتوں سے قطع نظر کیا نواز شریف کے علم میں بالکل نہیں ہے کہ جندال کا ملک بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ کیا کررہا ہے۔ سنا ہے کہ میاں نواز شریف خود بھی کشمیری ہیں۔ انہوں نے جندال کو کھانا کھلانے سے پہلے نہیں تو بعد میں سوچا ہو گا کہ ان کا ملک مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کیوں کھیل رہا ہے اور یہ نہیں بلکہ پورے بھارت میں گائے کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں پر مظالم کیوں ڈھائے جارہے ہیں۔وزیراعظم نے کلبھوشن اور احسان اللہ کے انکشافات کے حوالے سے تو ضرور بات کی ہو گی۔ ذاتی دوستوں سے ایسی باتیں تو پوچھی جاسکتی ہیں یہ تو نہیں ہوا ہو گا کہ دونوں نے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی، موسم پر گفتگو ہوئی کھانے کی تعریف کی اور بس وزیراعظم ایسی کلہاڑیوں سے اپنے آپ کو بچائیں اور آپ تو کلہاڑی پر پیر مارے جارہے ہیں، ذاتی مہمان تو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن وزیراعظم صاحب مہمان مہمان میں فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کے کھلے دشمن کا نمائندہ کسی پاکستانی کا مہمان کیسے ہو سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب بھی ملنا چاہیے کہ جب جندال کے پاس صرف لاہور اور اسلام آباد کا اجازت نامہ تھا تو وہ مری کیسے چلا گیا؟