اڑھائی کروڑ بچے اور ایک چیف جسٹس!!!
پاناما کیس کے دوران ایک بات جو محترم جج صاحبان نے بار بار دہرائی وہ یہی تھی کہ پاکستان میں ادارے اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں اور زیادہ تر بوجھ عدالتوں میں آن پڑا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے یہ ریمارکس گویا پورے پاکستانیوں کے دل کی آواز تھے۔ پاکستان ایک ایسے سماجی مسئلہ کی زد میں ہے جو ہمارے سیاسی لیڈروں کے دانشوروں کی نظر میں کسی اہمیت کا حامل نہیں اگر ہوتا تو اس مسئلہ پر کوئی بحث مباحثہ ،سیمینار یا ٹاک شو ہوتا لیکن مصیبت یہ ہے کہ نہ اس سے کوئی ریٹنگ بڑھ سکتی ہے نہ ووٹ بینک میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ نہ ہی اپنے بینک اکاﺅنٹ میں بڑھوتری ہو سکتی ہے۔ یہ مسئلہ ہے ان بچوں کا جن کے ہاتھوں سے کھلونے چھین کر ہم جیسے لوگوں کے گھروں میں اوپر کا کام کرنے کیلئے دھکیل دیا گیا ہے، جن سے ان کے بچپن سے شرارتیں اور شوخیاں چھین کر ان کی معصومیت کو داغدار کر دیا گیا ہے ۔ صاحب لوگوں کے گھروں میں ان پر جو ظلم ہوتے ہیں ان میں سے چند ایک بڑے گھروں کی اونچی دیواروں سے نکل کر کبھی کبھار ہمارے ضمیر پر تازیانے لگانے کیلئے اخبارات اور میڈیا کی زینت بن جاتے ہیں۔وہ بھی اگر کوئی صاحب ضمیر ہو تو، چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار2 مہینے میں 3 از خود نوٹس لے چکے ہیں۔ پہلے جس کیس کی باز گشت پورے پاکستان میں سنی گئی وہ دس سالہ طیبہ تھی وہ ایک ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خاں کے گھر ملازمہ تھی۔ ان کی اہلیہ نے اس معصوم بچی پر اس قدر بہیمانہ ظلم کیا کہ اس کا انگ انگ زخموں سے چھلنی، منہ سوجا ہوا، جسم گرم چمٹے کی مار سے داغ داغ تھا۔ اس کی تصویریں اور ویڈیو دیکھ کر پورا پاکستان لرز اٹھا۔
دوسرا کیس انسانیت کے نام پر دھبہ ہے۔13 سالہ عرفان ملزم شفقت علی کے گھر ملازم تھا۔ مالکن نے اسے بھینسوں کیلئے چارہ کاٹنے کا حکم اس وقت دیا جب اس بد نصیب کو خود بھوک لگی ہوئی تھی۔ اس کے کھانا مانگنے اور تنخواہ طلب کرنے پر اس ہاتھ کو ہی چارہ کاٹنے والی مشین میں دے کر کاٹ دیا جس ہاتھ سے اس نے حق محنت وصول کرنا تھا۔ اس المناک خبر پر چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی پنجاب سے 48 گھنٹوں میں از خود نوٹس کے تحت رپورٹ مانگ لی ۔یہ واقعہ 7 مئی کو وقوع پذیر ہوا تھا۔ عرفان کی ماں کی آہوں اور سسکوں نے تھانے کے درودیوار ہلا دئیے ہوں گے ۔
واقعہ کی ایف آئی آر درج نہ کی گئی۔ جب میڈیا پر شور مچا تو8 مئی کو ایف آئی آر کا اندراج ممکن ہوا۔ تیسرا از خود نوٹس چیف جسٹس نے سندھ کی12 سالہ گھریلو ملازمہ سے زیادتی کے حوالے سے میڈیا پر آنے والی خبروں پر لیا اور آئی جی سندھ کو حکم دیا کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر اس کی تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے۔
نام نہاد خادم اعلیٰ نے کہا کہ واقعہ کی تحقیقات کیلئے شاندار ریکارڈ کے حامل ایماندار افسروں کی کمیٹی بنا دی ہے۔ شفاف انکوائری ہو گی اور قصور وار پائے جانے والے کسی بھی بااثر اور طاقت ور کو ہر صورت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائےگا اور یہ روایتی فقرہ بھی بولا زیادتی کرنے والا کوئی شخص قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا، ہاتھ کاٹنے والے ظالم کو قانون کے شکنجے سے کوئی نہیں بچا سکتا، متاثرہ خاندان کے بچوں کی مفت تعلیم وتربیت کے اخراجات پنجاب حکومت برداشت کرے گی اور متاثرہ خاندان کو مفت طبی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔مزید یہ کہ مظلوم عرفان کے اکلوتے ہاتھ میں دس لاکھ کا چیک تھما کر آندھی کی طرح گئے اور بگولے کی طرح لوٹ آئے۔
سوال یہ ہے کہ ایک خاندان کو انصاف کی یقین دہانی مفت طبی سہولتیں ،مفت تعلیم و تربیت بہم پہنچانے کیلئے ایک13 سالہ بچے کا ہاتھ کٹوانا ضروری ہے؟
کیا آئین پاکستان نے پاکستانیوں کو صحت و تعلیم دینے کی ذمہ داری ریاست کی نہیں ٹھہرائی۔
کیا ہمارے لیڈروں کو خبر نہیں کہ اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ یہی وہ بچے ہیں جو نام و نہاد اشرافیہ کے گھروں میں ہر قسم کے ظلم و تعدی کا شکار ہیں۔
20 کروڑ کی آبادی میں صرف ڈیڑھ لاکھ سرکاری سکول جن میں سے11 ہزار سکول عمارتوں کے بغیر 15 ہزار سکولوں کی عمارتیں مخدوش ہو چکی ہیں۔50 ہزار سکولوں کی عمارتیں فوری مرمت مانگتی ہیں۔ کیا کبھی کسی لیڈر نے بچوں کی تعلیم و تربیت کا جامع منشور پیش کیا۔ جب بھی سنا یہی سنا موٹر وے کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی، جدید انفراسٹرکچر تعمیر کئے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی۔ کیا کسی سیاستدان نے قوم کے بچوں کا ذہن تعمیر کرنے کا پروگرام پیش کیا۔ کیاپسماندہ، ان پڑھ ذہن جدید انفراسٹرکچر سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔ ایک صرف عمران خان ہے جو ہیومن ڈویلپمنٹ کی بات کرتا ہے وہ بھی پتا نہیں کسی کی سمجھ میں آتی ہے کہ نہیں۔ پسماندگی، جدید انفراسٹرکچر کو کیسے استعمال کرتی ہے۔ جس نے دیکھنا ہو جا کر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی دیکھ لے۔ جدید ترین ہسپتال کا وہ حال ہو چکا ہے کہ ڈیڑھ سو سال پرانا میو ہسپتال بھی دیکھ کر شرمائے۔
یہ اڑھائی کروڑ بچے جو تعلیم و تربیت سے محروم ہیں ان کا کیا مستقبل ہے جن کا حال گرم چمٹے سے داغے جانا۔۔۔۔ گرم استری سے کھال جلائے جانا۔ دس، دس، بارہ بارہ سالہ لڑکیوں کا جنسی استحصال تنخواہ مانگنے پر اس ہاتھ ہی کا کاٹ دینا جس ہاتھ سے محنت کر کے اس نے زندگی بھر رزق کمانا تھا۔ یہ اڑھائی کروڑ بچے اپنے بچپن اور تعلیم سے یک لخت باہر نہیں ہوئے۔ میرے نزدیک تو یہ معصوم انسانی دائرے سے ہی باہر کر دئیے گئے ہیں۔ اس عمل کو ہمارے معاشرے میں دھیرے دھیرے داخل کیا گیا۔ آہستہ آہستہ ریاست نے صحت، تعلیم اور بنیادی سہولتوں سے ہاتھ اٹھانا شروع کیا اور جلدی جلدی پرائیویٹ مافیا نے حکومتی ملی بھگت سے اس کی خالی کی ہوئی جگہوں کو پورا کرنا شروع کر دیا اور گزشتہ چالیس برسوں میں میڈیکل اور تعلیم کے شبہ میں پرائیویٹ مافیا کا قبضہ ہوگیا جن کی فیسیں غریب عوام کی برداشت سے باہر ہیں۔ سرکاری سکولوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ غریب عوام نے اپنے بچے بڑے گھروں میں نوکر کروا نے شروع کر دئیے۔
غریبوں نے اب اپنا سرمایہ بچوں کو بنا لیا ہے۔ جتنے بچے زیادہ ہونگے اتنی ہی آمدنی بڑھے گی۔ آپ اپنے اردگرد دیکھیں آپ کو یہی نظر آئے گا۔ اب ایک قدم آگے بڑھ چکے ہیں۔50,50 ہزارایڈوانس لے کر ا سٹام پیپر لکھ دیتے ہیں کہ 5 سال تک یہ بچہ یہیں کام کرے گا، اسی لیے پاکستان کی آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی جو مغربی پاکستان سے زیادہ تھی میرا خیال ہے اب کم ہو چکی ہے۔ یہ آبادی بم کسی دن تو پھٹے گا۔ اس سیلاب بلا کر روکنے اور قوم کو تعمیر کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ میٹرک تک تعلیم لازمی اور مفت کر دی جائے اور اس پر مکمل کنٹرول ہو کہ کوئی بچہ سکول سے باہر نہ رہ جائے۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں بچے کو سکول نہ بھیجنے پر ماں باپ کو جرمانہ اور قید تک کی سزا ہو سکتی ہے کیونکہ آج جو بچے ہمارے گھروں میں دکانوں، میں ورکشاپوں میں کام کررہے ہیں کل کو وہ بھی دس دس بچے پیدا کر کے آرام سے اپنے گاﺅں میں بیٹھ کر نشے کررہے ہونگے اور کروڑوں بچوں کا بچپن کبھی آئے گا ہی نہیں۔ تعلیم لازمی اور مفت ہو تو جب ان بے حس ماں باپ کو اپنے بچوں کو تین وقت کا کھانا اور کپڑے فراہم کرنا پڑیں تو میں دیکھوں گا یہ دس دس بچے کیسے پیدا کرتے ہیں۔ یہ لوگ ان بدنصیب بچوں کو نہ گھر کا ماحول دے رہے ہیں۔ نہ ماں باپ کا پیار، ان کو صرف ان کی تنخواہ سے غرض ہے۔ اگر اس منحوس سرکل کو نہ توڑا گیا تو آبادی کا سیلاب پاکستان کو بہا کر لے جائے گا۔ ان بچوں اور بچیوں کی قسمت میں تشدد اور ہر قسم کا استحصال ہی رہ جائے گا۔ چیف جسٹس اڑھائی کروڑ بچوں میں سے کس کس کا از خود نوٹس لیں گے!!!