نیا اتحاد، اصل ہدف کون دہشت گرد یا ایران!!!
ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی امریکہ عرب سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے غیر ملکی دورے میں سعودی عرب کو چنا، سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے دہشت گردی کے خلاف مسلم ممالک کو متحد کیا آج نئے دور کا آغاز کررہے ہیں، اسلام دہشتگردی کی حمایت نہیں کرتا، سعودی عرب سے تاریخی تعلقات ہیں دونوں ممالک میں400 ارب ڈالر کے تاریخی معاہدے ہوئے ہیں، امریکہ اپنا طرز زندگی دوسروں پر تھوپنا چاہتا ہے نہ اپنی سوچ کسی پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، دہشت گردی اور انتہا پسندی کاخاتمہ اولین مقصد ہے، انہوں نے کہا کہ یہ خمینی کے انقلاب کے بعد سے ایران دہشتگردی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ خمینی انقلاب تک ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی سے آگاہ نہیں تھے، ایران دہشتگردی کا مرکز ہے لبنان سے لے کر عراق اور یمن تک ایران نہ صرف دہشتگردی کیلئے فنڈز فراہم کررہا ہے بلکہ وہ دہشتگردوں کی تربیت کرنے سمیت انہیں اسلحہ بھی فراہم کررہا ہے، ایرانی حمایت سے بشار الاسد نے شام میں ناقابل ذکر جرائم کئے ہیں، تمام مسلم ممالک سے اپیل ہے کہ جب تک ایرانی حکومت امن کیلئے ساتھ دینے پر رضا مند نہیں ہوتی، اسے عالمی طور پر تنہا کر دیں۔
میرے نزدیک امریکی صدر ٹرمپ نے بیرونی دنیا کے پہلے دورہ کے موقع پر ریاض میں عرب اسلامی سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ ہم کسی پر اپنا نظام زندگی مسلط نہیں کرنا چاہتے، ان کا یہ کہنا بھی سو فیصد درست ہے کہ دہشت گردی کا 90 فیصد نشانہ مسلمان ہیں۔ میں اس میں صرف اتنا اضافہ کرنا چاہتاہوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نشانہ بھی مسلمان ممالک ہی کے لاکھوں شہری بنے ہیں۔ امریکی صدر کی سعودی عرب آمد کا خیر مقدم کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے غیر ملکی دورے کیلئے عالم اسلام کے ایک اہم ملک کا انتخاب کیا۔ یاد رہے کہ بارک اوباما نے بھی اپنی پہلی عالمی تقریر مصر کی قدیم اور شہرہ آفاق الازہر یونیورسٹی میں کی تھی۔ اسی سے عالمی سیاست میں مسلم دنیا کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ سعودی عرب کے دورے کے فوری بعد پیر کی دوپہر اسرائیل پہنچے۔ فلسطین کے مقہور و مظلوم عوام امریکی صدر سے یہ امید وابستہ کئے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنے دورہ اسرائیل کے دوران فلسطین کی آزاد ریاست کے ان کے دیرینہ مطالبہ کو تسلیم کر کے خطے میں پائیدار قیام امن کی راہ ہموار کریں گے۔جو کہ ناممکن تھا ۔
یہ امر لائق توجہ ہے کہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکی صدر نے اپنی تقریر کے دوران توقعات کے برعکس صرف اور صرف ایران کو علاقے میں دہشت گردی کا منبع و مصدر بتایا ہے جبکہ عالمی مبصرین کی رائے یہ تھی کہ وہ ایران سمیت داعش، القاعدہ اور کرد دہشت گردوں کی تخریب کارانہ اور امن دشمن کارروائیوں کی جانب بھی توجہ دلائیں گے اور ان کے خلاف بھر پور کارروائی کی مہم کا آغاز کرنے کا مشورہ بھی دیں گے لیکن امریکی صدر اور سعودی فرمانروا کی تقریر سے ایسے واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک دہشت گردی کا منبع صرف ایران ہے۔ یہ بات مشرق وسطیٰ کے زمینی حقائق اور معروضی حالات سے کتنی مطابقت رکھتی ہے ارباب خبر و نظر کیلئے اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ دہشت گردی، دہشت گردی ہے۔ خواہ کسی روپ میں ہو اور کوئی بھی اسے پروان چڑھا رہا ہو۔یہ امر بھی موجب تشویش ہے کہ صدر امریکہ نے انتہائی چابکدستی سے تقریر کے دوران داعش کو اس طرح تنقید نہیں بنایا، جس کی توقع کی جارہی تھی۔ داعش کے حوالے سے ان کے اس نرم لہجے سے ان خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ اس تنظیم کو وجود میں لانے میں امریکی ادارے براہ راست نہ سہی بالواسطہ کار فرما رہے ہیں۔ اسی طرح کرد دہشت گردوں نے ترکی، شام اور عراق میں خونریزی ، سفاکیت اور بدامنی کا جوالاﺅ بھڑکا رکھا ہے وہ ان تینوں ممالک میں عدم استحکام کا کلیدی سبب ہے۔ کرد دہشت گردوں کے بارے یہ حقیقت معلوم و معروف ہے کہ انہوں نے ہمیشہ سی آئی اے اور امریکہ کی سرپرستی میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ وہ تو دہشت گردی کو باقاعدہ ایک فن بنا چکے ہیں اور حقائق و حالات اس امر کی توثیق و تصدیق کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ امریکی مفادات کے حصول میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ یہ امر دنیا بھر کے امن پسند شہریوں کیلئے موجب حیرت ہے کہ صدر ٹرمپ نے کرد دہشت گردوں بارے ایک بھی لفظ اپنے ہونٹوں پر لانے سے احتراز کیا۔
اس کا واضح مقصد یہ ہے کہ امریکہ دو بڑے، اہم اور تیل کے ذخائر سے مالا مال ممالک سعودی عرب اور ایران کو باہمی جنگ کے شعلوں کا ایندھن بنانا چاہتا ہے۔ یوں امریکہ عالم اسلام میں اختلاف اور انتشار پھیلانے کے اپنے دیرینہ ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اس ایجنڈے کا مقصد و حید اتحاد عالم اسلامی کی بیخ کنی ہے۔ صدر اوباما کے دور میں ایران کے مقتدر روحانی پیشوا اس کی تھپکی کے جھانسے میں آکر اپنے ایٹمی پروگرام پر دستخط کر کے سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ آج امریکہ ایران کو اسی طرح آنکھیں دکھا رہا ہے جس طرح اس معاہدے سے قبل وہ اس کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا تھا۔ ہر مسلمان اس حساس موقع پر سعودی عرب کے حکمرانوں کو باور کرانا چاہتا ہے کہ خادم الحرمین الشریفین ہونے کے ناطے عالم اسلام کے شہری انہیں مسند توقیر پر فائز تصور کرتے ہیں لیکن انہیں اس امر کا اداراک ہونا چاہیے کہ امریکہ کے ساتھ حالیہ مہنگے ترین معاہدے کر کے انہوں نے شاید لمحہ موجود میں اپنی حفاظت تو کر لی ہو لیکن امت مسلمہ کے اندر اختلاف پروان چڑھانے میں ان سے ایک فریق کا کردار کیا جارہا ہے۔ آنے والے دور میں اس کے منفی نتائج کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔میں اس موقع پر ایران کے صدر حسن روحانی کو بھی جنہوں نے حالیہ دنوں میں دوسری بار صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی ہے کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ جاننے کا حق محفوظ رکھتا ہوں کہ کیا آیت اللہ خمینی کا انقلاب واقعی شیعہ انقلاب تھا کیونکہ اس کی کوکھ سے شیعہ سنی افتراق و اختلاف پھیلتا جارہا ہے۔ یہ بات عالم اسلام کے عام شہری کی سمجھ سے بالا ہے کہ ایران نے یمن کی داخلی خانہ جنگی میں کیوں حصہ لیا اور سعودی عرب کے ہمسائیگی میں پہنچ کر مہیب خطرات کیوں پیدا کئے۔ ادھر جنوبی ایشیا میں ایران کی دوستی بھارت سے زیادہ اور برادر ہمسایہ ملک پاکستان سے کم ہے۔ ظاہر ہے اس وقت عالمی طاقتیں جو عالم عرب اور مسلم دنیا میں فرقہ وارانہ انتشار اور افتراق پھیلانا چاہ رہا ہے اس میں ایران کا بھی حصہ ہے۔ ایران کے مقتدر طبقات کو اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کر وہ دنیا کو اپنے خلاف کیوں کررہے ہیں۔وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف بھی ریاض کانفرنس میں شریک ہوئے اور جو فوجی اتحاد بننے جارہا ہے اس کے سپہ سالار بھی ہمارے ایک سابق چیف جنرل راحیل شریف ہیں۔ جنرل صاحب پاکستان روانگی سے قبل قوم کو یقین دہانی کرا گئے تھے کہ وہ کسی ایسی فوج کی سربراہی قبول نہیں کریں گے جس کا نشانہ ایران ہو لیکن آثار و قرائن سے اس کی تصدیق نہیں ہو رہی ۔ میں یہسمجھتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا فرض ہے کہ وہ اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی جامع، موثر اور مربوط سفارت کاری بروئے کار لائیں کہ سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہونے کے بجائے وسیع تر باہمی اتحاد اور تعاون پر آمادہ کر سکیں ۔ایسا ہونا ویسے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اور نوازشریف خود کو بچانے سعودی عرب جا سکتے ہیں عالم اسلام کو نہیں۔ پاکستان کو سعودی عرب کی حد تک اس اتحاد کا ضرور حصہ بننا چاہیے کہ سعودی عرب ہمارا ایسا دوست ملک ہے جس نے ہر ابتلا اور آزمائش کی گھڑی میں پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا ہے۔ تاہم یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ عالم اسلام کے فوجی اتحاد کی طاقت کسی مسلم ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ ہمارا اصل ہدف صرف اور صرف دہشت گردی کا کلی استحصال ہے یہ دہشت گردی خواہ کسی روپ اور لبادے میں ہو۔