Tayyab Mumtaz

بھارت کو ڈرون دینے کا امریکی فیصلہ

امریکہ کے محکمہ خارجہ نے بھارت کو جدید ڈرون دینے کی منظوری دے دی ہے ۔ نئی دہلی نے2ارب ڈالر مالیت کے22گارڈین ڈرون خریدنے کی درخواست کی تھی ۔ بھارتی خبر ایجنسی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے ڈرون کی خریداری کی تیاری کے فیصلے سے بھارت کو آگاہ کردیا ہے ۔ ایف 16طیاروں کی بھارت میں تیاری کے بعد یہ امریکہ سے دوسرا بڑا سودا ہے ۔ اوبامہ انتظامیہ نے بھارت کو یہ ڈرون دینے سے انکار کردیا تھا ۔ 2016ءسے بھارت مسلسل یہ ڈرون طیارے خریدنے کی کوشش میں تھا اور اس نے امریکی انتظامیہ سے متعدد بار درخواست کی تھی ۔ اوباما دور میں امریکی کانگریس اور محکمہ دفاع نے ڈرون فروخت کرنے کی اجازت دے دی تھی ۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ کے تحفظات تھے ۔ امریکی محکمہ خارجہ، چین، بھارت اور پاکستان کشیدگی کی صورتحال میں نئی دہلی کو ڈرون فروخت کرکے خطے کا سٹریٹیجک توازن خراب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ بھارت کے وزیراعظم آج سے امریکہ کا دورہ شروع کررہے ہیں ۔ وہ صدر ٹرمپ سے بھی ملاقات کریں گے ۔ امریکہ نے بھارتی وزیراعظم کو دورے کے آغاز سے پہلے ہی ڈرون کا تحفہ دے دیا ہے ۔ بھارت امریکہ سے مزائل بردار ڈرون بھی حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ وزیراعظم مودی دورہ امریکہ میں صدٹرمپ سے اس حوالے سے بات کریں گے ۔ امریکہ نے مودی کو دورہ شروع ہونے سے پہلے ہی ڈرون کا تحفظ دے کر خطے میں سٹریٹجک توازن میں بے اعتدالی پیدا کردی ہے ۔ امریکہ اب اس بھارتی وزیراعظم کو یہ ڈرون دے رہا ہے جسے امریکہ نے وزیراعظم بننے سے پہلے دہشت گرد ہونے اور 2ہزار سے زائد مسلمانوں کے قتل میں ملوث ہونے پر امریکہ کا ویزا دینے پر پابندی لگا رکھی تھی ۔ نریندر مودی جب تک گجرات کا وزیراعلیٰ تھا اس پر امریکہ داخلے پر پابندی تھی ۔ اب امریکہ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور اسے ایک حد کے اندر رکھنے کے لیے مختلف حربے استعمال کررہا ہے ۔ امریکہ بھارت کو سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے بعد اب ڈرون دے رہا ہے ۔ اس کے علاوہ لاک ہیڈ ، بھارت میں ایف16 طیارے بنانے کا کارخانہ لگانا چاہتی ہے ۔ امریکہ خیال کرتا ہے کہ بھارت کو اسلحہ اور جدید سازوسامان دے کر چین کو قابو کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن امریکہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت قرِضوں اور ادھار پر لیے ہوئے اسلحہ پر گزارا ررہا ہے وہ اس چین کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے جس کا اپنے دفاع کے لیے کسی ملک پر کوئی انحصار نہیں نہ وہ کسی دوسرے ملک سے اسلحہ لیتا ہے نہ ٹیکنالوجی یا دیگر سازوسامان کے لیے کسی دوسرے ملک کا دست نگر ہے ۔ امریکی پالیسی سازوں کو اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ وہ بھارت کو جدید اسلحہ اور حربی سازوسامان فراہم کرکے خطے میں دفاعی عدم توازن پیدا کررہا ہے ۔ یہ امریکہ کے لیے بھی خطرنا ہوسکتا ہے جو افغانستان میں اب تک ناکام ہے ۔ امریکی حکومت کو یہ بھی باور کرنا چاہیے کہ وہ بھارت کو گولہ وبارود دے کر وقتی طور پر تو مطمئن ہوسکتے لیکن امریکہ کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ بھارت1962ءمیں نیفا سیکٹر میں جنگ میں چین سے شکست کھا چکا ہے ۔ بھارت چین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتا ۔ اس کا یہ اسلحہ صرف پاکستان کے خلاف استعمال ہوگا ۔ ان حالات میں پاکستان کو بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔ اور اپنی سرحدوں کی مکمل حفاظت کرنی چاہیے ۔ امریکہ نے نئی پالیسی میں پاکستان پر بار بار ڈرون حملوں کی جو دھمکی دی ہے تنگ آمد بجنگ آمد پاکستان کو اس کی دھمکی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ امریکہ کو واضح طور پر بتا دیا جائے کہ پاکستان کی دفاعی حدود کی خلاف ورزی پر ان ڈرون طیاروں کو مار گرایا جائےگا ۔ پاکستان نے اسی ہفتے ایک ایرانی ڈرون کونشانہ بنا کر دنیا کوبتا دیا ہے کہ وہ ڈرون طیاروں کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ امریکہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ چین کو گھیرنے کے چکر میںبھارت کو مضبوط بنا کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا نہ کرے ۔ پاکستان کو اس حوالے سے امریکہ کو واضح طور پر تمام حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ وہ بھارت کی یک طرفہ محبت میں غلط فیصلے نہ کرے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button